احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب فِي كَسْبِ الْمُعَلِّمِ
باب: معلم (مدرس) کو تعلیم کی اجرت لینا کیسا ہے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 3416
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا وكيع، وحميد بن عبد الرحمن الرواسي، عن مغيرة بن زياد، عن عبادة بن نسي، عن الاسود بن ثعلبة، عن عبادة بن الصامت، قال:"علمت ناسا من اهل الصفة الكتاب والقرآن، فاهدى إلي رجل منهم قوسا، فقلت: ليست بمال وارمي عنها في سبيل الله عز وجل لآتين رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلاسالنه، فاتيته، فقلت: يا رسول الله، رجل اهدى إلي قوسا ممن كنت اعلمه الكتاب والقرآن، وليست بمال وارمي عنها في سبيل الله، قال: إن كنت تحب ان تطوق طوقا من نار فاقبلها".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ کے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ہدیتہً دی، میں نے (جی میں) کہا یہ کوئی مال تو ہے نہیں، اس سے میں فی سبیل اللہ تیر اندازی کا کام لوں گا (پھر بھی) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور آپ سے اس بارے میں پوچھوں گا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جن لوگوں کو قرآن پڑھنا لکھنا سکھا رہا تھا، ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی ہے، اور اس کی کچھ مالیت تو ہے نہیں، میں اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں پسند ہو کہ تمہیں آگ کا طوق پہنایا جائے تو اس کمان کو قبول کر لو ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/التجارات 8 (2157)، (تحفة الأشراف: 5068)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/315) (صحیح) (اس کے راوی سعود مجہول ہیں اور مغیرہ سے وہم ہو جاتا تھا، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی 256، والارواء 1493)

وضاحت: ۱؎:صحیح بخاری میں کتاب اللہ کے سلسلہ میں اجرت لینے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق بوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں مذکور ہے کہ آپ نے ایک شخص کا نکاح کیا اور قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا، ان روایات کی روشنی میں جمہور علماء کا کہنا ہے کہ تعلیم قرآن، امامت، قضاء اور اذان وغیرہ کی اجرت لی جا سکتی ہے، کیونکہ مذکورہ تینوں روایات سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا کوئی مقابلہ نہیں (کیوں کہ اس کی دونوں سندوں میں متکلم فیہ راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: