احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

2: باب فِي الْكَلاَلَةِ
باب: کلالہ کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2886
حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا سفيان، قال: سمعت ابن المنكدر، انه سمع جابرا يقول: مرضت فاتاني النبي صلى الله عليه وسلم يعودني، هو وابو بكر ماشيين وقد اغمي علي فلم اكلمه، فتوضا وصبه علي فافقت فقلت: يا رسول الله كيف اصنع في مالي ولي اخوات ؟ قال:"فنزلت آية المواريث يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة سورة النساء آية 176.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بیمار ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھے دیکھنے کے لیے پیدل چل کر آئے، مجھ پر غشی طاری تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات نہ کر سکا تو آپ نے وضو کیا اور وضو کے پانی کا مجھ پر چھینٹا مارا تو مجھے افاقہ ہوا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنا مال کیا کروں اور بہنوں کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، اس وقت میراث کی آیت «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے (سورۃ النساء: ۱۷۶)، اتری ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر النساء 27 (4605)، المرضی 5 (5651)، الفرائض 13 (6743)، صحیح مسلم/الفرائض 2 (1616)، سنن الترمذی/الفرائض 7 (2097)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 5 (2728)، (تحفة الأشراف: 3028)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطھارة 56 (760) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: کلالہ: ایسا شخص جو نہ باپ چھوڑے نہ کوئی اولاد، اس کے سلسلہ میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کوئی مر جائے اور اس کی اپنی کوئی اولاد نہ ہو صرف ایک بہن ہو تو آدھا مال لے گی، دو ہوں تو ثلث لے لیں گی، اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا اخیر تک۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: