احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

115: باب فِي الرَّجُلِ يُسْتَأْسَرُ
باب: مجاہد قیدی بنا لیا جائے تو کیا کرے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2660
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم يعني ابن سعد، اخبرنا ابن شهاب، اخبرني عمرو بن جارية الثقفي حليف بني زهرة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة عينا، وامر عليهم عاصم بن ثابت فنفروا لهم هذيل بقريب من مائة رجل رام فلما احس بهم عاصم لجئوا إلى قردد فقالوا لهم: انزلوا فاعطوا بايديكم ولكم العهد والميثاق ان لا نقتل منكم احدا، فقال عاصم: اما انا فلا انزل في ذمة كافر، فرموهم بالنبل فقتلوا عاصما في سبعة نفر، ونزل إليهم ثلاثة نفر على العهد والميثاق منهم خبيب وزيد بن الدثنة ورجل آخر، فلما استمكنوا منهم اطلقوا اوتار قسيهم فربطوهم بها، فقال الرجل الثالث: هذا اول الغدر والله لا اصحبكم إن لي بهؤلاء لاسوة فجروه، فابى ان يصحبهم فقتلوه فلبث خبيب اسيرا حتى اجمعوا قتله فاستعار موسى يستحد بها فلما خرجوا به ليقتلوه، قال لهم خبيب: دعوني اركع ركعتين ثم قال: والله لولا ان تحسبوا ما بي جزعا لزدت".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمیوں کو جاسوسی کے لیے بھیجا، اور ان کا امیر عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بنایا، ان سے لڑنے کے لیے ہذیل کے تقریباً سو تیر انداز نکلے، جب عاصم رضی اللہ عنہ نے ان کے آنے کو محسوس کیا تو ان لوگوں نے ایک ٹیلے کی آڑ میں پناہ لی، کافروں نے ان سے کہا: اترو اور اپنے آپ کو سونپ دو، ہم تم سے عہد کرتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کریں گے، عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا: رہی میری بات تو میں کافر کی امان میں اترنا پسند نہیں کرتا، اس پر کافروں نے انہیں تیروں سے مارا اور ان کے سات ساتھیوں کو قتل کر دیا جن میں عاصم رضی اللہ عنہ بھی تھے اور تین آدمی کافروں کے عہد اور اقرار پر اعتبار کر کے اتر آئے، ان میں ایک خبیب، دوسرے زید بن دثنہ، اور تیسرے ایک اور آدمی تھے رضی اللہ عنہم، جب یہ لوگ کفار کی گرفت میں آ گئے تو کفار نے اپنی کمانوں کے تانت کھول کر ان کو باندھا، تیسرے شخص نے کہا: اللہ کی قسم! یہ پہلی بدعہدی ہے، اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا، میرے لیے میرے ان ساتھیوں کی زندگی نمونہ ہے، کافروں نے ان کو کھینچا، انہوں نے ساتھ چلنے سے انکار کیا، تو انہیں قتل کر دیا، اور خبیب رضی اللہ عنہ ان کے ہاتھ میں قیدی ہی رہے، یہاں تک کہ انہوں نے خبیب کے بھی قتل کرنے کا ارادہ کر لیا، تو آپ نے زیر ناف کے بال مونڈنے کے لیے استرا مانگا ۱؎، پھر جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے لے کر چلے تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: مجھے چھوڑو میں دو رکعت نماز پڑھ لوں، پھر کہا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ مجھے مارے جانے کے خوف سے گھبراہٹ ہے تو میں اور دیر تک پڑھتا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد 170 (3045)، والمغازي 10 (3989)، والتوحید 14 (7402)، (تحفة الأشراف: 14271)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/294، 310) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: سولی دیتے وقت بے پردہ ہونے کا خطرہ تھا، اس لئے خبیب رضی اللہ عنہ نے استرا طلب کیا تا کہ زیر ناف صاف کر لیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: