احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

155: باب فِيمَنْ أَسْهَمَ لَهُ سَهْمًا
باب: جس کے نزدیک گھوڑے کو ایک حصہ دینا چاہئے اس کی دلیل کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 2736
حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا مجمع بن يعقوب بن مجمع بن يزيد الانصاري، قال: سمعت ابي يعقوب بن مجمع، يذكر عن عمه عبد الرحمن بن يزيد الانصاري، عن عمه مجمع بن جارية الانصاري، وكان احد القراء الذين قرءوا القرآن قال: شهدنا الحديبية مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما انصرفنا عنها إذا الناس يهزون الاباعر، فقال بعض الناس لبعض ما للناس قالوا: اوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرجنا مع الناس نوجف، فوجدنا النبي صلى الله عليه وسلم واقفا على راحلته عند كراع الغميم، فلما اجتمع عليه الناس قرا عليهم إنا فتحنا لك فتحا مبينا فقال رجل: يا رسول الله افتح هو، قال: نعم، والذي نفس محمد بيده إنه لفتح فقسمت خيبر على اهل الحديبية، فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم على ثمانية عشر سهما، وكان الجيش الفا وخمس مائة فيهم ثلاث مائة فارس، فاعطى الفارس سهمين واعطى الراجل سهما، قال ابو داود: حديث ابي معاوية اصح والعمل عليه وارى الوهم في حديث مجمع انه قال: ثلاث مائة فارس، وكانوا مائتي فارس.
مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ ان قاریوں میں سے ایک تھے جو قرآت قرآن میں ماہر تھے، وہ کہتے ہیں: ہم صلح حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم وہاں سے واپس لوٹے تو لوگ اپنی سواریوں کو حرکت دے رہے تھے، بعض نے بعض سے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی گئی ہے تو ہم بھی لوگوں کے ساتھ (اپنی سواریوں) کو دوڑاتے اور ایڑ لگاتے ہوئے نکلے، ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کراع الغمیم ۱؎ کے پاس کھڑا پایا جب سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «إنا فتحنا لك فتحا مبينا» پڑھی، تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا یہی فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہی فتح ہے، پھر خیبر کی جنگ میں جو مال آیا وہ صلح حدیبیہ کے لوگوں پر تقسیم ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کے اٹھارہ حصے کئے اور لشکر کے لوگ سب ایک ہزار پانچ سو تھے جن میں تین سو سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواروں کو دو حصے دئیے اور پیدل والوں کو ایک حصہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابومعاویہ کی حدیث (نمبر ۲۷۳۳) زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے، اور میرا خیال ہے مجمع کی حدیث میں وہم ہوا ہے انہوں نے کہا ہے: تین سو سوار تھے حالانکہ دو سو سوار تھے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، مسند احمد (3/420)، (تحفة الأشراف: 11214)، ویأتی ہذا الحدیث فی الخراج (3015) (ضعیف) (اس کے راوی مجمع سے وہم ہو گیا ہے حالانکہ وہ صدوق ہیں)

وضاحت: ۱؎: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔
۲؎: گویا لشکر کی صحیح تعداد چودہ سو تھی جن میں دو سو سوار تھے، سواروں کو تین تین حصے دئے گئے اور پیدل والوں کو ایک حصہ۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

Share this: