احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

49: باب فِي الرَّجُلِ يُفَضِّلُ بَعْضَ وَلَدِهِ فِي النُّحْلِ
باب: باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟
سنن ابي داود حدیث نمبر: 3542
حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا هشيم، اخبرنا سيار، واخبرنا مغيرة، واخبرنا داود، عن الشعبي، واخبرنا مجالد، وإسماعيل بن سالم،عن الشعبي، عن النعمان بن بشير، قال:"انحلني ابي نحلا، قال إسماعيل بن سالم، من بين القوم نحلة غلاما له، قال: فقالت له امي عمرة بنت رواحة: إيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشهده، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاشهده، فذكر ذلك له، فقال: إني نحلت ابني النعمان نحلا، وإن عمرة، سالتني ان اشهدك على ذلك، قال: فقال: الك ولد سواه ؟ قال: قلت: نعم، قال: فكلهم اعطيت مثل ما اعطيت النعمان ؟ قال: لا، قال: فقال بعض هؤلاء المحدثين: هذا جور، وقال بعضهم: هذا تلجئة، فاشهد على هذا غيري"، قال مغيرة في حديثه: اليس يسرك ان يكونوا لك في البر واللطف سواء ؟ قال: نعم، قال: فاشهد على هذا غيري". وذكر مجالد في حديثه:"إن لهم عليك من الحق ان تعدل بينهم، كما ان لك عليهم من الحق ان يبروك". قال ابو داود: في حديث الزهري، قال بعضهم:"اكل بنيك"، وقال بعضهم:"ولدك"، وقال ابن ابي خالد، عن الشعبي فيه:"الك بنون سواه"، وقال ابو الضحى، عن النعمان بن بشير:"الك ولد غيره".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز (بطور عطیہ) دی، (اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جایئے (اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گواہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لیے) حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس بات کا گواہ بنا لوں (اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ہوں) آپ نے ان سے پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے اور کوئی لڑکا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے سب کو اسی جیسی چیز دی ہے جو نعمان کو دی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ظلم ہے اور بعض کی روایت میں ہے: یہ جانب داری ہے، جاؤ تم میرے سوا کسی اور کو اس کا گواہ بنا لو (میں ایسے کاموں کی شہادت نہیں دیتا)۔ مغیرہ کی روایت میں ہے: کیا تمہیں اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ تمہارے سارے لڑکے تمہارے ساتھ بھلائی اور لطف و عنایت کرنے میں برابر ہوں؟ انہوں نے کہا: ہاں (مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو (مجھے یہ امتیاز اور ناانصافی پسند نہیں)۔ اور مجالد نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے: ان (بیٹوں) کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم ان سب کے درمیان عدل و انصاف کرو جیسا کہ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: زہری کی روایت میں ۱؎ بعض نے: «أكل بنيك» کے الفاظ روایت کئے ہیں اور بعض نے «بنيك» کے بجائے «ولدك» کہا ہے، اور ابن ابی خالد نے شعبی کے واسطہ سے «ألك بنون سواه» اور ابوالضحٰی نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے «ألك ولد غيره» روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الھبة 12 (2587)، الشھادات 9 (2650)، صحیح مسلم/الھبات 3 (1623)، سنن النسائی/النحل 1 (3709)، سنن ابن ماجہ/الھبات 1 (2375)، (تحفة الأشراف: 11625)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/268، 269، 270، 273، 276) (صحیح) إلا زیادة مجالد مجالد نے حدیث میں جو زیادتی ذکر کی ہے، وہ صحیح نہیں ہے)

وضاحت: ۱؎: ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ لفظ ولد مذکر اور مؤنث دونوں کو شامل ہے اور لفظ «بنین» اگر وہ سب مذکر تھے تو وہ اپنے ظاہر پر ہے اور اگر ان میں مذکر اور مؤنث دونوں تھے تو یہ «علی سبیل التغلیب» استعمال ہوا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح إلا زيادة مجالد إن لهم

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ مجالد ضعيف (تقدم:2827) وللحديث شواهد ضعيفة ۔

Share this: