احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

23: باب فِي خَبَرِ النَّضِيرِ
باب: بنو نضیر سے جنگ کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 3004
حدثنا محمد بن داود بن سفيان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: ان كفار قريش كتبوا إلى ابن ابي ومن كان يعبد معه الاوثان من الاوس و الخزرج، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ بالمدينة قبل وقعة بدر إنكم آويتم صاحبنا وإنا نقسم بالله لتقاتلنه او لتخرجنه او لنسيرن إليكم باجمعنا حتى نقتل مقاتلتكم ونستبيح نساءكم، فلما بلغ ذلك عبد الله بن ابي ومن كان معه من عبدة الاوثان اجتمعوا لقتال النبي صلى الله عليه وسلم، فلما بلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم لقيهم فقال:"لقد بلغ وعيد قريش منكم المبالغ ما كانت تكيدكم باكثر مما تريدون ان تكيدوا به انفسكم تريدون ان تقاتلوا ابناءكم وإخوانكم، فلما سمعوا ذلك من النبي صلى الله عليه وسلم تفرقوا، فبلغ ذلك كفار قريش فكتبت كفار قريش بعد وقعة بدر إلى اليهود إنكم اهل الحلقة والحصون وإنكم لتقاتلن صاحبنا او لنفعلن كذا وكذا ولا يحول بيننا وبين خدم نسائكم شيء وهي الخلاخيل، فلما بلغ كتابهم النبي صلى الله عليه وسلم اجمعت بنو النضير بالغدر فارسلوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم اخرج إلينا في ثلاثين رجلا من اصحابك وليخرج منا ثلاثون حبرا حتى نلتقي بمكان المنصف فيسمعوا منك فإن صدقوك وآمنوا بك آمنا بك فقص خبرهم، فلما كان الغد غدا عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالكتائب فحصرهم فقال: لهم إنكم والله لا تامنون عندي إلا بعهد تعاهدوني عليه"، فابوا ان يعطوه عهدا فقاتلهم يومهم ذلك، ثم غدا الغد على بني قريظة بالكتائب وترك بني النضير ودعاهم إلى ان يعاهدوه فعاهدوه فانصرف عنهم وغدا على بني النضير بالكتائب فقاتلهم حتى نزلوا على الجلاء فجلت بنو النضير واحتملوا ما اقلت الإبل من امتعتهم وابواب بيوتهم وخشبها، فكان نخل بني النضير لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة اعطاه الله إياها وخصه بها فقال: وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل ولا ركاب سورة الحشر آية 6، يقول: بغير قتال، فاعطى النبي صلى الله عليه وسلم اكثرها للمهاجرين، وقسمها بينهم وقسم منها لرجلين من الانصار، وكانا ذوي حاجة لم يقسم لاحد من الانصار غيرهما، وبقي منها صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي في ايدي بني فاطمة رضي الله عنها.
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ کفار قریش نے اس وقت جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے تھے اور جنگ بدر پیش نہ آئی تھی عبداللہ بن ابی اور اس کے اوس و خزرج کے بت پرست ساتھیوں کو لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنے یہاں پناہ دی ہے، ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم اس سے لڑ بھڑ (کر اسے قتل کر دو) یا اسے وہاں سے نکال دو، نہیں تو ہم سب مل کر تمہارے اوپر حملہ کر دیں گے، تمہارے لڑنے کے قابل لوگوں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے لیے مباح کر لیں گے۔ جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں کو پہنچا تو وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے، جب یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ جا کر ان سے ملے اور انہیں سمجھایا کہ قریش کی دھمکی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی دھمکی ہے، قریش تمہیں اتنا ضرر نہیں پہنچا سکتے جتنا تم خود اپنے تئیں ضرر پہنچا سکتے ہو، کیونکہ تم اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں سے لڑنا چاہتے ہو، جب ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تو وہ آپس میں ایک رائے نہیں رہے، بٹ گئے، (جنگ کا ارادہ سب کا نہیں رہا) تو یہ بات کفار قریش کو پہنچی تو انہوں نے واقعہ بدر کے بعد پھر اہل یہود کو خط لکھا کہ تم لوگ ہتھیار اور قلعہ والے ہو تم ہمارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لڑو نہیں تو ہم تمہاری ایسی تیسی کر دیں گے (یعنی قتل کریں گے) اور ہمارے درمیان اور تمہاری عورتوں کی پنڈلیوں و پازیبوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو گی، جب ان کا خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ لگا، تو بنو نضیر نے فریب دہی و عہدشکنی کا پلان بنا لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے اصحاب میں سے تیس آدمی لے کر ہماری طرف نکلئے، اور ہمارے بھی تیس عالم نکل کر آپ سے ایک درمیانی مقام میں رہیں گے، وہ آپ کی گفتگو سنیں گے اگر آپ کی تصدیق کریں گے اور آپ پر ایمان لائیں گے تو ہم سب آپ پر ایمان لے آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے ان کی یہ سب باتیں بیان کر دیں، دوسرے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لشکر لے کر ان کی طرف گئے اور ان کا محاصرہ کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اللہ کی قسم ہمیں تم پر اس وقت تک اطمینان نہ ہو گا جب تک کہ تم ہم سے معاہدہ نہ کر لو گے، تو انہوں نے عہد دینے سے انکار کیا (کیونکہ ان کا ارادہ دھوکہ دینے کا تھا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس دن جنگ کی، پھر دوسرے دن آپ نے اپنے لشکر کو لے کر قریظہ کے یہودیوں پر چڑھائی کر دی اور بنو نضیر کو چھوڑ دیا اور ان سے کہا: تم ہم سے معاہدہ کر لو، انہوں نے معاہدہ کر لیا کہ (ہم آپ سے نہ لڑیں گے اور نہ آپ کے دشمن کی مدد کریں گے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ سے معاہدہ کر کے واپس آ گئے، دوسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوجی دستے لے کر بنو نضیر کی طرف بڑھے اور ان سے جنگ کی یہاں تک کہ وہ جلا وطن ہو جانے پر راضی ہو گئے تو وہ جلا وطن کر دئیے گئے، اور ان کے اونٹ ان کا جتنا مال و اسباب گھروں کے دروازے اور کاٹ کباڑ لاد کر لے جا سکے وہ سب لاد کر لے گئے، ان کے کھجوروں کے باغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہو گئے، اللہ نے انہیں آپ کو عطا کر دیا، اور آپ کے لیے خاص کر دیا، اور ارشاد فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کافروں کے مال میں سے جو کچھ عطا کیا ہے وہ تمہارے اونٹ اور گھوڑے دوڑانے یعنی جنگ کرنے کے نتیجہ میں نہیں دیا ہے (سورۃ الحشر: ۶)۔ راوی کہتے ہیں: «فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» کے معنی ہیں جو آپ کو بغیر لڑائی کے حاصل ہوا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا زیادہ تر حصہ مہاجرین کو دیا اور انہیں کے درمیان تقسیم فرمایا اور اس میں سے آپ نے دو ضرورت مند انصاریوں کو بھی دیا، ان دو کے علاوہ کسی دوسرے انصاری کو نہیں دیا، اور جس قدر باقی رہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا جو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کے ہاتھ میں رہا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15622) (صحیح الإسناد)

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ الزهري عنعن (تقدم:145)

Share this: