15: باب فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
باب: سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان۔
سنن ابي داود حدیث نمبر: 1458
حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا خالد، حدثنا شعبة، عن خبيب بن عبد الرحمن، قال: سمعت حفص بن عاصم يحدث، عن ابي سعيد بن المعلى، ان النبي صلى الله عليه وسلم مر به وهو يصلي فدعاه، قال: فصليت، ثم اتيته، قال: فقال:"ما منعك ان تجيبني ؟"، قال: كنت اصلي، قال:"الم يقل الله عز وجل: يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم سورة الانفال آية 24، لاعلمنك اعظم سورة من القرآن، او في القرآن شك خالد، قبل ان اخرج من المسجد"قال: قلت: يا رسول الله قولك، قال:"الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2هي السبع المثاني التي اوتيت والقرآن العظيم".
ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ان کے پاس سے ہوا وہ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ نے انہیں بلایا، میں (نماز پڑھ کر) آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے مجھے جواب کیوں نہیں دیا؟“، عرض کیا: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ”اے مومنو! جواب دو اللہ اور اس کے رسول کو، جب رسول اللہ تمہیں ایسے کام کے لیے بلائیں، جس میں تمہاری زندگی ہے“ میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورۃ سکھاؤں گا اس سے پہلے کہ میں مسجد سے نکلوں“، (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے) تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابھی آپ نے کیا فرمایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ سورۃ «الحمد لله رب العالمين» ہے اور یہی سبع مثانی ہے جو مجھے دی گئی ہے اور قرآن عظیم ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة 1 (4474)، وتفسیر الأنفال 3 (4648)، وتفسیر الحجر 3 (4703)، وفضائل القرآن 9 (5006)، سنن النسائی/الافتتاح 26 (914)، سنن ابن ماجہ/الأدب 52 (3785)، (تحفة الأشراف:12047)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 7 (37)، مسند احمد (3/450، 4/211)، سنن الدارمی/الصلاةٔ 172 (1533)، وفضائل القرآن 12 (3414) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح