احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

12: 12- بَابُ الْخُلْعِ وَكَيْفَ الطَّلاَقُ فِيهِ:
باب: خلع کے بیان میں۔
وقول الله تعالى: ولا يحل لكم ان تاخذوا مما آتيتموهن شيئا إلا ان يخافا الا يقيما حدود الله إلى قوله: الظالمون سورة البقرة آية 229 واجاز عمر الخلع دون السلطان، واجاز عثمان الخلع دون عقاص راسها، وقال طاوس: إلا ان يخافا الا يقيما حدود الله سورة البقرة آية 229 فيما افترض لكل واحد منهما على صاحبه في العشرة والصحبة، ولم يقل قول السفهاء: لا يحل حتى تقول: لا اغتسل لك من جنابة.
‏‏‏‏ اور خلع میں طلاق کیونکر پڑے گی؟ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا «ولا يحل لكم أن تأخذوا مما آتيتموهن شيئا‏» کہ اور تمہارے لیے (شوہروں کے لیے) جائز نہیں کہ جو (مہر) تم انہیں (اپنی بیویوں کو) دے چکے ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس لو، سوا اس صورت کے جبکہ زوجین اس کا خوف محسوس کریں کہ وہ (ایک ساتھ رہ کر) اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے خلع جائز رکھا ہے۔ اس میں بادشاہ یا قاضی کے حکم کی ضرورت نہیں ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر جورو اپنے سارے مال کے بدلہ میں خلع کرے صرف جوڑا باندھنے کا دھاگہ رہنے دے تب بھی خلع کرانا درست ہے۔ طاؤس نے کہا کہ «إلا أن يخافا أن لا يقيما حدود الله‏» کا یہ مطلب ہے کہ جب جورو اور خاوند اپنے اپنے فرائض کو جو حسن معاشرت اور صحبت سے متعلق ہیں ادا نہ کر سکیں (اس وقت خلع کرانا درست ہے)۔ طاؤس نے ان بیوقوفوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ خلع اسی وقت درست ہے جب عورت کہے کہ میں جنابت یا حیض سے غسل ہی نہیں کروں گی۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 5273
حدثنا ازهر بن جميل، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس،"ان امراة ثابت بن قيس اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، ثابت بن قيس ما اعتب عليه في خلق ولا دين، ولكني اكره الكفر في الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اتردين عليه حديقته ؟ قالت: نعم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقبل الحديقة، وطلقها تطليقة". قال ابو عبد الله: لا يتابع فيه عن ابن عباس.
ہم سے ازہر بن جمیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی۔ (کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو نہیں ادا کر سکتی)۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ثابت رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ باغ قبول کر لو اور انہیں طلاق دے دو۔

Share this: