احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

40: 40- بَابُ مَتَى يُقْضَى قَضَاءُ رَمَضَانَ:
باب: رمضان کے قضاء روزے کب رکھے جائیں۔
وقال ابن عباس: لا باس ان يفرق لقول الله تعالى: فعدة من ايام اخر سورة البقرة آية 184، وقال سعيد بن المسيب في صوم العشر: لا يصلح حتى يبدا برمضان، وقال إبراهيم: إذا فرط حتى جاء رمضان آخر يصومهما ولم ير عليه طعاما، ويذكر عن ابي هريرة، مرسلا، وابن عباس، انه يطعم ولم يذكر الله الإطعام، إنما قال: فعدة من ايام اخر سورة البقرة آية 184.
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان کو متفرق دنوں میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم صرف یہ ہے کہ گنتی پوری کر لو دوسرے دنوں میں۔ اور سعید بن مسیب نے کہا کہ (ذی الحجہ کے) دس روزے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کے روزے واجب ہوں (اور ان کی قضاء ابھی تک نہ کی ہو) رکھنے بہتر نہیں ہیں بلکہ رمضان کی قضاء پہلے کرنی چاہئے اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ اگر کسی نے کوتاہی کی (رمضان کی قضاء میں) اور دوسرا رمضان بھی آ گیا تو دونوں کے روزے رکھے اور اس پر فدیہ واجب نہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مرسلاً ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ وہ (مسکینوں) کو کھانا بھی کھلائے۔ اللہ تعالیٰ نے کھانا کھلانے کا (قرآن میں) ذکر نہیں کیا بلکہ اتنا ہی فرمایا کہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کی جائے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1950
حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا يحيى، عن ابي سلمة، قال: سمعت عائشة رضي الله عنها، تقول:"كان يكون علي الصوم من رمضان، فما استطيع ان اقضي إلا في شعبان"، قال يحيى: الشغل من النبي، او بالنبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتیں کہ رمضان کا روزہ مجھ سے چھوٹ جاتا۔ شعبان سے پہلے اس کی قضاء کی توفیق نہ ہوتی۔ یحییٰ نے کہا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھا۔

Share this: