احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

92: 92- سورة {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى}:
باب: سورۃ «والليل إذا يغشى» کی تفسیر۔
وقال ابن عباس: وكذب بالحسنى: بالخلف، وقال مجاهد: تردى: مات، وتلظى: توهج وقرا عبيد بن عمير تتلظى.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وكذب بالحسنى‏» سے یہ مراد ہے کہ اس کو یہ یقین نہیں کہ اللہ کی راہ میں جو خرچ کرے گا اس کا بدلہ اللہ اس کو دے گا اور مجاہد نے کہا «اذا تردى‏» جب مر جائے۔ «تلظى‏» وہ دوزخ کی آگ بھڑکتی شعلہ مارتی ہے۔ اور عبید بن عمیر نے «تتلظى‏» دو (تاء) کے ساتھ پڑھا ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4943
حدثنا قبيصة بن عقبة، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، قال: دخلت في نفر من اصحاب عبد الله الشام، فسمع بنا ابو الدرداء، فاتانا، فقال: افيكم من يقرا ؟ فقلنا: نعم، قال: فايكم اقرا ؟ فاشاروا إلي، فقال: اقرا، فقرات والليل إذا يغشى { 1 } والنهار إذا تجلى { 2 } سورة الليل آية 1-2 والذكر والانثى، قال: انت سمعتها من في صاحبك ؟ قلت: نعم، قال: وانا سمعتها من في النبي صلى الله عليه وسلم وهؤلاء يابون علينا".
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے ساتھ میں ملک شام پہنچا ہمارے متعلق ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سنا تو ہم سے ملنے خود تشریف لائے اور دریافت فرمایا تم میں کوئی قرآن مجید کا قاری بھی ہے؟ ہم سے کہا جی ہاں ہے۔ دریافت فرمایا کہ سب سے اچھا قاری کون ہے؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ پھر کوئی آیت تلاوت کرو۔ میں نے «والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى * والذكر والأنثى‏» کی تلاوت کی۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا تم نے خود یہ آیت اپنے استاد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زبانی اسی طرح سنی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ آیت اسی طرح سنی ہے، لیکن یہ شام والے ہم پر انکار کرتے ہیں۔

Share this: