احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: 5- بَابُ: {وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ}:
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور پوری کشادگی کے ساتھ جہاں چاہو اپنا رزق کھاؤ اور دروازے سے جھکتے ہوئے داخل ہونا، یوں کہتے ہوئے کہ اے اللہ! ہمارے گناہ معاف کر دے تو ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے اور خلوص کے ساتھ عمل کرنے والوں کے ثواب میں ہم زیادتی کریں گے“۔
رغدا: واسع كثير.
‏‏‏‏ لفظ «رغدا» کے معنی «واسع كثير» کے ہیں یعنی بہت فراخ۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4479
حدثني محمد , حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , عن ابن المبارك , عن معمر , عن همام بن منبه , عن ابي هريرة رضي الله عنه , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"قيل لبني إسرائيل وادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة سورة البقرة آية 58، فدخلوا يزحفون على استاههم فبدلوا، وقالوا حطة حبة في شعرة".
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو یہ حکم ہوا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھکتے ہوئے داخل ہوں اور «حطة‏» کہتے ہوئے (یعنی) اے اللہ! ہمارے گناہ معاف کر دے۔ لیکن وہ الٹے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور کلمہ «حطة‏» کو بھی بدل دیا اور کہا کہ «حبة في شعرة» یعنی دل لگی کے طور پر کہنے لگے کہ دانہ بال کے اندر ہونا چاہیے۔

Share this: