احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

27: 27- سورة النَّمْلِ:
باب: سورۃ النمل کی تفسیر۔
كل شيء هالك إلا وجهه: إلا ملكه، ويقال: إلا ما اريد به وجه الله، وقال مجاهد: فعميت عليهم الانباء: الحجج.
‏‏‏‏ «كل شىء هالك إلا وجهه‏» یعنی ہر شے فنا ہونے والی ہے، سوائے اس کی ذات کے ( «إلا وجهه‏» سے مراد ہے) بجز اس کی سلطنت کے بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ اعمال لیے ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کئے گئے ہوں۔ (ثواب کے لحاظ سے وہ بھی فنا نہ ہوں گے) مجاہد نے کہا کہ «الأنباء‏» سے دلیلیں مراد ہیں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4772
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سعيد بن المسيب، عن ابيه، قال:"لما حضرت ابا طالب الوفاة جاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد عنده ابا جهل وعبد الله بن ابي امية بن المغيرة، فقال:"اي عم قل لا إله إلا الله كلمة احاج لك بها عند الله"، فقال ابو جهل، وعبد الله بن ابي امية: اترغب عن ملة عبد المطلب، فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرضها عليه ويعيدانه بتلك المقالة حتى، قال ابو طالب: آخر ما كلمهم على ملة عبد المطلب وابى ان، يقول: لا إله إلا الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"والله لاستغفرن لك ما لم انه عنك، فانزل الله: ما كان للنبي والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين سورة التوبة آية 113 وانزل الله في ابي طالب، فقال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنك لا تهدي من احببت ولكن الله يهدي من يشاء سورة القصص آية 56 قال ابن عباس: اولي القوة: لا يرفعها العصبة من الرجال، لتنوء: لتثقل، فارغا: إلا من ذكر موسى، الفرحين: المرحين، قصيه: اتبعي اثره، وقد يكون ان يقص الكلام نحن نقص عليك، عن جنب: عن بعد، عن جنابة واحد، وعن اجتناب ايضا يبطش ويبطش، ياتمرون: يتشاورون العدوان والعداء والتعدي، واحد، آنس: ابصر الجذوة قطعة غليظة من الخشب ليس فيها لهب والشهاب فيه لهب، والحيات اجناس الجان والافاعي والاساود، ردءا: معينا، قال ابن عباس: يصدقني، وقال غيره: سنشد: سنعينك كلما عززت شيئا فقد جعلت له عضدا مقبوحين مهلكين، وصلنا: بيناه واتممناه، يجبى: يجلب، بطرت: اشرت، في امها رسولا: ام القرى مكة وما حولها، تكن: تخفي اكننت الشيء اخفيته وكننته اخفيته واظهرته، ويكان الله: مثل الم تر ان الله، يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر: يوسع عليه ويضيق عليه".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا۔ انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ان کے والد (مسیب بن حزن) نے بیان کیا کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا! آپ صرف کلمہ «لا إله إلا الله» پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کروں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باربار ان سے یہی کہتے رہے (کہ آپ صرف ایک کلمہ پڑھ لیں) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے باربار دہراتے رہے (کہ کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟) آخر ابوطالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» پڑھنے سے انکار کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تاآنکہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين‏» نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اور خاص ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا «إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء‏» کہ جس کو تم چاہو ہدایت نہیں کر سکتے، البتہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جس کے لیے وہ ہدایت چاہتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أولي القوة‏» سے یہ مراد ہے کہ کئی زور دار آدمی مل کر بھی اس کی کنجیاں نہیں اٹھا سکتے تھے۔ «لتنوء‏» کا مطلب ڈھوئی جاتی تھیں۔ «فارغا‏» کا معنی یہ ہے کہ موسیٰ کی ماں کے دل میں موسیٰ کے سوا اور کوئی خاص نہیں رہا تھا۔ «الفرحين‏» کا معنی خوشی سے اتراتے ہوئے۔ «قصيه‏» یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا۔ «قصص» کے معنی بیان کرنے کے ہوتے ہیں جیسے سورۃ یوسف میں فرمایا «نحن نقص عليك‏»، «عن جنب‏» یعنی دور سے «عن جنابة» کا بھی یہی معنی ہے اور «عن اجتناب» کا بھی یہی ہے۔ «يبطش» ‏‏‏‏ بہ کسرہ طاء اور «يبطش‏.‏» بہ ضمہ طاء دونوں قرآت ہیں۔ «يأتمرون‏» مشورہ کر رہے ہیں۔ «عدوان» اور «عدو» اور «تعدي» سب کا ایک ہی مفہوم ہے یعنی حد سے بڑھ جانا ظلم کرنا۔ «آنس‏» کا معنی دیکھنا۔ «جذوة» لکڑی کا موٹا ٹکڑا جس کے سر ے پر آگ لگی ہو مگر اس میں شعلہ نہ ہو اور «شهاب» جو آیت «اواتیکم بشهاب قبس» میں ہے اس سے مراد ایسی جلتی ہوئی لکڑی جس میں شعلہ ہو۔ «حيات» یعنی سانپوں کی مختلف قسمیں (جیسے) جان، افعی، اسود وغیرہ «ردءا‏» یعنی مددگار، پشت پناہ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہا نے «يصدقني‏» بہ ضمہ قاف پڑھا ہے۔ اوروں نے کہا «سنشد‏» کا معنی یہ ہے کہ ہم تیری مدد کریں گے عرب لوگ کا محاورہ ہے جب کسی کو قوت دیتے ہیں تو کہتے ہیں «جعلت له عضدا‏.‏»۔ «مقبوحين» ‏‏‏‏ کا معنی ہلاک کئے گئے۔ «وصلنا‏» ہم نے اس کو بیان کیا اور پورا کیا۔ «يجبى‏» کچھے آتے ہیں۔ «بطرت‏» شرارت کی۔ «في أمها رسولا‏»، «أم القرى» مکہ اور اس کے اطراف کو کہتے ہیں۔ «تكن‏» کا معنی چھپاتی ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں «أكننت» ‏‏‏‏ یعنی میں نے اس کو چھپا لیا۔ «كننته» کا بھی یہی معنی ہے۔ «ويكأن الله‏» کا معنی «ألم تر أن الله» کے یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا۔ «يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر‏» یعنی اللہ جس کو چاہتا ہے فراغت سے روزی دیتا ہے جسے چاہتا ہے تنگی سے دیتا ہے۔

Share this: