احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

12: 12- بَابُ مَنِ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَتَرَكَ أَجْرَهُ، فَعَمِلَ فِيهِ الْمُسْتَأْجِرُ فَزَادَ، أَوْ مَنْ عَمِلَ فِي مَالِ غَيْرِهِ فَاسْتَفْضَلَ:
باب: اگر کسی نے کوئی مزدور کیا اور وہ مزدور اپنی اجرت لیے بغیر چلا گیا پھر (مزدور کی اس چھوڑی ہوئی رقم یا جنس سے) مزدوری لینے والے نے کوئی تجارتی کام کیا۔ اس طرح وہ اصل مال بڑھ گیا اور وہ شخص جس نے کسی دوسرے کے مال سے کوئی کام کیا اور اس میں نفع ہوا (ان سب کے بارے میں کیا حکم ہے)۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2272
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني سالم بن عبد الله، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"انطلق ثلاثة رهط ممن كان قبلكم، حتى اووا المبيت إلى غار فدخلوه، فانحدرت صخرة من الجبل فسدت عليهم الغار، فقالوا: إنه لا ينجيكم من هذه الصخرة إلا ان تدعوا الله بصالح اعمالكم، فقال رجل منهم: اللهم كان لي ابوان شيخان كبيران، وكنت لا اغبق قبلهما اهلا ولا مالا، فناى بي في طلب شيء يوما، فلم ارح عليهما حتى ناما، فحلبت لهما غبوقهما فوجدتهما نائمين، وكرهت ان اغبق قبلهما اهلا او مالا، فلبثت والقدح على يدي انتظر استيقاظهما حتى برق الفجر، فاستيقظا فشربا غبوقهما، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك، ففرج عنا ما نحن فيه من هذه الصخرة، فانفرجت شيئا لا يستطيعون الخروج، قال النبي صلى الله عليه وسلم: وقال الآخر: اللهم كانت لي بنت عم كانت احب الناس إلي، فاردتها عن نفسها، فامتنعت مني حتى المت بها سنة من السنين، فجاءتني فاعطيتها عشرين ومائة دينار، على ان تخلي بيني وبين نفسها، ففعلت حتى إذا قدرت عليها، قالت: لا احل لك ان تفض الخاتم إلا بحقه، فتحرجت من الوقوع عليها فانصرفت عنها وهي احب الناس إلي وتركت الذهب الذي اعطيتها، اللهم إن كنت فعلت ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه، فانفرجت الصخرة غير انهم لا يستطيعون الخروج منها، قال النبي صلى الله عليه وسلم: وقال الثالث: اللهم إني استاجرت اجراء فاعطيتهم اجرهم غير رجل واحد ترك الذي له وذهب فثمرت اجره حتى كثرت منه الاموال، فجاءني بعد حين، فقال: يا عبد الله، اد إلي اجري، فقلت له: كل ما ترى من اجرك من الإبل، والبقر، والغنم، والرقيق، فقال: ياعبد الله، لا تستهزئ بي، فقلت: إني لا استهزئ بك فاخذه كله، فاستاقه فلم يترك منه شيئا، اللهم فإن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك، فافرج عنا ما نحن فيه، فانفرجت الصخرة، فخرجوا يمشون".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جا رہے تھے۔ رات ہونے پر رات گزارنے کے لیے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، اور اس میں اندر داخل ہو گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں، سوا اس کے کہ تم سب، اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا، نہ اپنے بال بچوں کو، اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو۔ ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں رات ہو گئی اور جب میں گھر واپس ہوا تو وہ (میرے ماں باپ) سو چکے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے شام کا دودھ نکالا۔ جب ان کے پاس لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں، اس لیے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے۔ اس دعا کے نتیجہ میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا۔ مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی، اے اللہ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی۔ جو سب سے زیادہ مجھے محبوب تھی، میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا، لیکن اس نے نہ مانا۔ اسی زمانہ میں ایک سال قحط پڑا۔ تو وہ میرے پاس آئی میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے۔ چنانچہ وہ راضی ہو گئی۔ اب میں اس پر قابو پا چکا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لیے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو۔ یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آ گیا اور وہاں سے چلا آیا۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی اور میں نے اپنا دیا ہوا سونا بھی واپس نہیں لیا۔ اے اللہ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے۔ چنانچہ چٹان ذرا سی اور کھسکی، لیکن اب بھی اس سے باہر نہیں نکلا جا سکتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تیسرے شخص نے دعا کی۔ اے اللہ! میں نے چند مزدور کئے تھے۔ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری ہی چھوڑ گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت کچھ نفع حاصل ہو گیا پھر کچھ دنوں کے بعد وہی مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ کے بندے! مجھے میری مزدوری دیدے، میں نے کہا یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ اونٹ، گائے، بکری اور غلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا، چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔ تو اے اللہ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے۔ چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے۔

Share this: