احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

7: 7- بَابُ إِذَا اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا عَلَى أَنْ يُقِيمَ حَائِطًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ جَازَ:
باب: اگر کوئی شخص کسی کو اس کام پر مقرر کرے کہ وہ گرتی ہوئی دیوار کو درست کر دے تو جائز ہے۔
لقوله: {إني اريد ان انكحك إحدى ابنتي هاتين} إلى قوله: {على ما نقول وكيل} ياجر فلانا يعطيه اجرا، ومنه في التعزية اجرك الله.
‏‏‏‏ سورۃ قصص میں اللہ تعالیٰ نے (شعیب علیہ السلام کا قول یوں) بیان فرمایا ہے کہ «إني أريد أن أنكحك إحدى ابنتى هاتين‏» میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے کسی کا تم سے نکاح کر دوں آخر آیت «على ما نقول وكيل‏» تک۔ عربوں کے ہاں «يأجر فلانا» بول کر مراد ہوتا ہے، یعنی فلاں کو وہ مزدوری دیتا ہے۔ اسی لفظ سے مشتق تعزیت کے موقعہ پر یہ لفظ کہتے «أجرك الله‏.‏» (اللہ تجھ کو اس کا اجر عطا کرے)۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2267
حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج اخبرهم، قال: اخبرني يعلى بن مسلم، وعمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير، يزيد احدهما على صاحبه وغيرهما، قال: قد سمعته يحدثه عن سعيد، قال: قال لي ابن عباس رضي الله عنه حدثني ابي بن كعب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"فانطلقا، فوجدا جدارا يريد ان ينقض، قال سعيد: بيده هكذا، ورفع يديه فاستقام، قال يعلى: حسبت ان سعيدا، قال: فمسحه بيده فاستقام، لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال سعيد: اجرا ناكله".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے سعید سے خبر دی۔ یہ دونوں حضرات (سعید بن جبیر سے اپنی روایتوں میں) ایک دوسرے سے کچھ زیادہ روایت کرتے ہیں۔ ابن جریج نے کہا میں نے یہ حدیث اوروں سے بھی سنی ہے۔ وہ بھی سعید بن جبیر سے نقل کرتے تھے کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اور ان سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں (موسیٰ اور خضر علیہما السلام) چلے۔ تو انہیں ایک گاؤں میں ایک دیوار ملی جو گرنے ہی والی تھی۔ سعید نے کہا خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا اور ہاتھ اٹھایا، وہ دیوار سیدھی ہو گئی۔ یعلیٰ نے کہا میرا خیال ہے کہ سعید نے کہا، خضر علیہ السلام نے دیوار کو اپنے ہاتھ سے چھوا، اور وہ سیدھی ہو گئی، تب موسیٰ علیہ السلام بولے کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سعید نے کہا کہ (موسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ) کوئی ایسی چیز مزدوری میں (آپ کو لینی چاہئیے تھی) جسے ہم کھا سکتے (کیونکہ بستی والوں نے ان کو کھانا نہیں کھلایا تھا)۔

Share this: