11: 11- بَابٌ في النِّكَاحِ:
باب: نکاح پر جھوٹی گواہی گزر جائے تو کیا حکم ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 6969
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا يحيى بن سعيد، عن القاسم،"ان امراة من ولد جعفر تخوفت ان يزوجها وليها وهي كارهة، فارسلت إلى شيخين من الانصار، عبد الرحمن، ومجمع ابني جارية، قالا: فلا تخشين، فإن خنساء بنت خذام انكحها ابوها وهي كارهة، فرد النبي صلى الله عليه وسلم ذلك"، قال سفيان: واما عبد الرحمن فسمعته يقول: عن ابيه، إن خنساء.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے قاسم نے کہ جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی (جن کی وہ زیر پرورش تھیں) ان کا نکاح کر دے گا۔ حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمٰن اور مجمع کو جو جاریہ کے بیٹے تھے کہلا بھیجا انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں۔ کیونکہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمٰن کو اپنے والد سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ خنساء رضی اللہ عنہا آخر حدیث تک بیان کیا۔