احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ: {لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ}:
باب: آیت کی تفسیر ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ“۔
وقال مجاهد: لا تجعلنا فتنة: لا تعذبنا بايديهم، فيقولون: لو كان هؤلاء على الحق ما اصابهم هذا، بعصم الكوافر: امر اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بفراق نسائهم كن كوافر بمكة.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «لا تجعلنا فتنة‏ للذين كفروا» کا معنی یہ ہے کہ کافروں کے ہاتھوں سے ہم کو تکلیف نہ پہنچا، وہ یوں کہنے لگیں اگر ان مسلمانوں کا دین سچا ہوتا تو یہ ہمارے ہاتھ سے مغلوب کیوں ہوتے ایسی تکلیفیں کیوں اٹھاتے۔ «بعصم الكوافر‏» سے یہ مراد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو یہ حکم ہوا کہ ان کافر عورتوں کو چھوڑ دیں جو مکہ میں بحالت کفر رہ گئیں ہیں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4890
حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو بن دينار، قال: حدثني الحسن بن محمد بن علي، انه سمع عبيد الله بن ابي رافع كاتب علي، يقول: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير والمقداد، فقال:"انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن بها ظعينة معها كتاب، فخذوه منها، فذهبنا تعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة، فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي من كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب، او لنلقين الثياب، فاخرجته من عقاصها، فاتينا به النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا فيه من حاطب بن ابي بلتعة إلى اناس من المشركين ممن بمكة يخبرهم ببعض امر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"ما هذا يا حاطب ؟"قال: لا تعجل علي يا رسول الله، إني كنت امرا من قريش ولم اكن من انفسهم، وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها اهليهم واموالهم بمكة، فاحببت إذ فاتني من النسب فيهم ان اصطنع إليهم يدا يحمون قرابتي وما فعلت ذلك كفرا ولا ارتدادا عن ديني، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"إنه قد صدقكم"فقال عمر: دعني يا رسول الله، فاضرب عنقه، فقال:"إنه شهد بدرا وما يدريك لعل الله عز وجل اطلع على اهل بدر، فقال:"اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم"، قال عمرو: ونزلت فيه يايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء سورة الممتحنة آية 1، قال: لا ادري الآية في الحديث، او قول عمرو. حدثنا علي، قال: قيل لسفيان في هذا، فنزلت لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء سورة الممتحنة آية 1 الآية، قال سفيان: هذا في حديث الناس حفظته من عمرو ما تركت منه حرفا وما ارى احدا حفظه غيري.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حسن بن محمد بن علی نے بیان کیا، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے کاتب عبیداللہ بن ابی رافع سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہما کو روانہ کیا اور فرمایا کہ چلے جاؤ اور جب مقام خاخ کے باغ پر پہنچ جاؤ گے (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھا) تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی، اس کے ساتھ ایک خط ہو گا، وہ خط تم اس سے لے لینا۔ چنانچہ ہم روانہ ہوئے ہمارے گھوڑے ہمیں تیز رفتاری کے ساتھ لے جا رہے تھے۔ آخر جب ہم اس باغ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہم نے ہودج میں اس عورت کو پا لیا ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے ورنہ ہم تیرا سارا کپڑا اتار کر تلاشی لیں گے۔ آخر اس نے اپنی چوٹی سے خط نکالا ہم لوگ وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس خط میں لکھا ہوا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے چند آدمیوں کی طرف جو مکہ میں تھے اس خط میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری کا ذکر لکھا تھا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑی فوج لے کر آتے ہیں تم اپنا بچاؤ کر لو)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں میں قریش کے ساتھ بطور حلیف (زمانہ قیام مکہ میں) رہا کرتا تھا لیکن ان کے قبیلہ و خاندان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برخلاف آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی قریش میں رشتہ داریاں ہیں اور ان کی رعایت سے قریش مکہ میں رہ جانے والے ان کے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جبکہ ان سے میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے تو اس موقع پر ان پر ایک احسان کر دوں اور اس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ یا رسول اللہ! میں نے یہ عمل کفر یا اپنے دین سے پھر جانے کی وجہ سے نہیں کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً انہوں نے تم سے سچی بات کہہ دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود تھے۔ تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر والوں کے تمام حالات سے واقف تھا اور اس کے باوجود ان کے متعلق فرما دیا کہ جو جی چاہے کرو کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی «يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم‏» کہ الایۃ۔ اے ایمان والو! تم میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بنا لینا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ اس آیت کا ذکر حدیث میں داخل ہے یا نہیں یہ عمرو بن دینار کا قول ہے۔ ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا آیت «لا تتخذوا عدوي‏» انہیں کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ سفیان نے کہا کہ لوگوں کی روایت میں تو یونہی ہے لیکن میں نے عمرو سے حدیث یاد کی اس میں سے ایک حرف بھی میں نے نہیں چھوڑا اور میں نہیں سمجھتا کہ میرے سوا اور کسی نے اس حدیث کو عمرو سے خوب یاد رکھا ہو۔

Share this: