احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

3: 3- بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» :
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 6728
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان، وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي من حديثه ذلك، فانطلقت حتى دخلت عليه فسالته، فقال: انطلقت حتى ادخل على عمر، فاتاه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد ؟ قال: نعم، فاذن لهم، ثم قال: هل لك في علي، وعباس ؟ قال: نعم، قال عباس: يا امير المؤمنين: اقض بيني وبين هذا، قال: انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال"لا نورث ما تركنا صدقة". يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه، فقال الرهط: قد قال ذلك، فاقبل على علي، وعباس، فقال: هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك ؟ قالا: قد قال ذلك، قال عمر: فإني احدثكم عن هذا الامر، إن الله قد كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال عز وجل: ما افاء الله على رسوله إلى قوله قدير سورة الحشر آية 6 فكانت خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، والله ما احتازها دونكم، ولا استاثر بها عليكم، لقد اعطاكموها، وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال، فكان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله من هذا المال نفقة سنته، ثم ياخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذاك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، انشدكم بالله هل تعلمون ذلك ؟ قالوا: نعم، ثم قال لعلي، وعباس: انشدكما بالله هل تعلمان ذلك ؟ قالا: نعم، فتوفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضها فعمل بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضتها سنتين اعمل فيها ما عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر، ثم جئتماني وكلمتكما واحدة، وامركما جميع، جئتني تسالني نصيبك من ابن اخيك، واتاني هذا يسالني نصيب امراته من ابيها، فقلت: إن شئتما دفعتها إليكما، بذلك فتلتمسان مني قضاء غير ذلك، فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيها قضاء غير ذلك، حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما فادفعاها إلي فانا اكفيكماها.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے مالک بن اوس کی اس حدیث کا ایک حصہ ذکر کیا تھا۔ پھر میں خود مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث پوچھی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا پھر ان کے حاجب یرفاء نے جا کر ان سے کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن بن زبیر اور سعد آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اچھا آنے دو۔ چنانچہ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ پھر کہا، کیا آپ علی و عباس رضی اللہ عنہما کو بھی آنے کی اجازت دیں گے؟ کہا کہ ہاں آنے دو۔ چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب راہ اللہ صدقہ ہے؟ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خود اپنی ہی ذات تھی۔ جملہ حاضرین بولے کہ جی ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ پھر عمر، علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا؟ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں اب آپ لوگوں سے اس معاملہ میں گفتگو کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فے کے معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ حصے مخصوص کر دئیے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا «ما أفاء الله على رسوله‏» سے ارشاد «قدير‏» تک۔ یہ تو خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تھا۔ اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمہارے لیے ہی مخصوص کیا تھا اور تمہارے سوا کسی کو اس پر ترجیح نہیں دی تھی، تمہیں کو اس میں سے دیتے تھے اور تقسیم کرتے تھے۔ آخر اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کا خرچہ لیتے تھے، اس کے بعد جو کچھ باقی بچتا اسے ان مصارف میں خرچ کرتے جو اللہ کے مقرر کردہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل آپ کی زندگی بھر رہا۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں، کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو یہ معلوم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ جی ہاں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوں چنانچہ انہوں نے اس پر قبضہ میں رکھ کر اس طرز عمل کو جاری رکھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی وفات دی تو میں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کا نائب ہوں۔ میں بھی دو سال سے اس پر قابض ہوں اور اس مال میں وہی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہو۔ آپ دونوں کی بات ایک ہے اور معاملہ بھی ایک ہی ہے۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ) میرے پاس اپنے بھتیجے کی میراث سے اپنا حصہ لینے آئے ہو اور آپ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کا حصہ لینے آئے ہو جو ان کے والد کی طرف سے انہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں اسے آپ کو دے سکتا ہوں لیکن آپ لوگ اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں تو اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، میں اس مال میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، قیامت تک، اگر آپ اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیجئیے میں اس کا بھی بندوبست کر لوں گا۔

Share this: