احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

27: 27- بَابُ حَدِيثِ الْخَضِرِ مَعَ مُوسَى- عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ-:
باب: خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعات۔
يقال للموت الكثير طوفان القمل الحمنان يشبه صغار الحلم حقيق سورة الاعراف آية 105 حق سقط سورة الاعراف آية 149 كل من ندم فقد سقط في يده.
‏‏‏‏ بکثرت اموات کو بھی طوفان کہتے ہیں۔ «القمل» اس چیچڑی کو کہتے ہیں جو چھوٹی جوں کے مشابہ ہوتی ہے۔ «حقيق‏» بمعنی «حق‏» لازم۔ «سقط‏» بمعنی نادم ہوا۔ جو شخص شرمندہ ہوتا ہے اس کے لیے عرب لوگ کہتے ہیں «سقط في يده‏.‏» تو (گویا) وہ اپنے ہاتھ میں گر پڑا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3400
حدثنا عمرو بن محمد، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثني ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، ان عبيد الله بن عبد الله، اخبره، عن ابن عباس، انه تمارى هو والحر بن قيس الفزاري في صاحب موسى، قال ابن عباس: هو خضر فمر بهما ابي بن كعب، فدعاه ابن عباس، فقال: إني تماريت انا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سال السبيل إلى لقيه، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شانه، قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل جاءه رجل، فقال: هل تعلم احدا اعلم منك، قال: لا فاوحى الله إلى موسى بلى عبدنا خضر فسال موسى السبيل إليه فجعل له الحوت آية، وقيل له: إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه فكان يتبع الحوت في البحر، فقال: لموسى فتاه ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره، فقال موسى: ذلك ما كنا نبغ فارتدا على آثارهما قصصا فوجدا خضرا فكان من شانهما الذي قص الله في كتابه".
ہم سے عمر بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ حر بن قیس فزاری رضی اللہ عنہ سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا اختلاف ہوا۔ پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میرا اپنے ان ساتھی سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے راستہ پوچھا تھا ‘ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں ‘ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا ‘ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اس تمام زمین پر آپ سے زیادہ علم رکھنے والا ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ کیوں نہیں ‘ ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان تک پہنچنے کا راستہ پوچھا تو انہیں مچھلی کو اس کی نشانی کے طور پر بتایا گیا اور کہا گیا کہ جب مچھلی گم ہو جائے (تو جہاں گم ہوئی ہو وہاں) واپس آ جانا وہیں ان سے ملاقات ہو گی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام دریا میں (سفر کے دوران) مچھلی کی برابر نگرانی کرتے رہے۔ پھر ان سے ان کے رفیق سفر نے کہا کہ آپ نے خیال نہیں کیا جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تو میں مچھلی کے متعلق آپ کو بتانا بھول گیا تھا اور مجھے شیطان نے اسے یاد رکھنے سے غافل رکھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اسی کی تو ہمیں تلاش ہے چنانچہ یہ بزرگ اسی راستے سے پیچھے کی طرف لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ان دونوں کے ہی وہ حالات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔

Share this: