احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

55: 55- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ} إِلَى قَوْلِهِ: {غَفُورٌ رَحِيمٌ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم‏» تک۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4322
وقال الليث: حدثني يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، ان ابا قتادة، قال: لما كان يوم حنين نظرت إلى رجل من المسلمين يقاتل رجلا من المشركين وآخر من المشركين يختله من ورائه ليقتله، فاسرعت إلى الذي يختله، فرفع يده ليضربني واضرب يده فقطعتها، ثم اخذني فضمني ضما شديدا حتى تخوفت، ثم ترك فتحلل ودفعته، ثم قتلته، وانهزم المسلمون وانهزمت معهم، فإذا بعمر بن الخطاب في الناس، فقلت له: ما شان الناس ؟ قال: امر الله، ثم تراجع الناس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من اقام بينة على قتيل قتله فله سلبه"، فقمت لالتمس بينة على قتيلي، فلم ار احدا يشهد لي، فجلست، ثم بدا لي فذكرت امره لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل من جلسائه: سلاح هذا القتيل الذي يذكر عندي فارضه منه، فقال ابو بكر: كلا لا يعطه اصيبغ من قريش، ويدع اسدا من اسد الله يقاتل عن الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاداه إلي، فاشتريت منه خرافا، فكان اول مال تاثلته في الإسلام.
اور لیث بن سعد نے بیان کیا، مجھ سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا تھا کہ ان سے عمر بن کثیر بن افلح نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابو محمد نے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھا کہ ایک مشرک سے لڑ رہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف بڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایا تو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچا کہ میں ڈر گیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیا اور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ لوگوں میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے، پھر لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس پر گواہ قائم کر دے گا کہ کسی مقتول کو اسی نے قتل کیا ہے تو اس کا سارا سامان اسے ملے گا۔ میں اپنے مقتول پر گواہ کے لیے اٹھا لیکن مجھے کوئی گواہ دکھائی نہیں دیا۔ آخر میں بیٹھ گیا پھر میرے سامنے ایک صورت آئی۔ میں نے اپنے معاملے کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ ان کے مقتول کا ہتھیار میرے پاس ہے، آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرتا ہے، اس کا حق قریش کے ایک بزدل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دے سکتے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان عطا فرمایا۔ میں نے اس سے ایک باغ خریدا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا تھا۔

Share this: