احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: 5- بَابُ نَفَقَةِ الْمَرْأَةِ إِذَا غَابَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَنَفَقَةِ الْوَلَدِ:
باب: کسی عورت کا شوہر اگر غائب ہو تو اس کی عورت کیونکر خرچ کرے اور اولاد کے خرچ کا بیان۔
وقال يونس: عن الزهري،"نهى الله ان تضار والدة بولدها وذلك ان تقول الوالدة لست مرضعته وهي امثل له غذاء واشفق عليه وارفق به من غيرها، فليس لها ان تابى بعد ان يعطيها من نفسه ما جعل الله عليه وليس للمولود له ان يضار بولده والدته، فيمنعها ان ترضعه ضرارا لها إلى غيرها فلا جناح عليهما ان يسترضعا عن طيب نفس الوالد والوالدة، فإن ارادا فصالا عن تراض منهما وتشاور فلا جناح عليهما بعد ان يكون ذلك عن تراض منهما وتشاور فصاله فطامه".
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة‏» اور مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں پورے دو سال (یہ مدت) اس کے لیے ہے جو دودھ کی مدت پوری کرنا چاہے۔ سے ارشاد «بما تعملون بصير‏» تک۔ اور سورۃ الاحقاف میں فرمایا «وحمله وفصاله ثلاثون شهرا‏» اور اس کا حمل اور اس کا دودھ چھوڑنا تیس مہینوں میں ہوتا ہے۔ اور سورۃ الطلاق میں فرمایا «وإن تعاسرتم فسترضع له أخرى * لينفق ذو سعة من سعته ومن قدر عليه رزقه‏» کہ اور اگر تم میاں بیوی آپس میں ضد کرو گے تو بچے کو دودھ کوئی دوسری عورت پلائے گی۔ وسعت والے کو خرچ دودھ پلانے کے لیے اپنی وسعت کے مطابق کرنا چاہیے اور جس کی آمدنی کم ہو اسے چاہیے کہ اسے اللہ نے جتنا دیا ہو اس میں خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «بعد عسر يسرا‏» تک اور یونس نے زہری سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے کہ ماں اس کے بچہ کی وجہ سے باپ کو تکلیف پہنچائے اور اس کی صورت یہ ہے مثلاً کہ ماں کہہ دے کہ میں اسے دودھ نہیں پلاؤں گی حالانکہ اس کی غذا بچے کے زیادہ موافق ہے۔ وہ بچہ پر زیادہ مہربان ہوتی ہے اور دوسرے کے مقابلہ میں بچہ کے ساتھ وہ زیادہ لطف و نرمی کر سکتی ہے۔ اس لیے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ بچہ کو دودھ پلانے سے اس وقت بھی انکار کر دے جبکہ بچہ کا والد اسے (نان نفقہ میں) اپنی طرف سے وہ سب کچھ دینے کو تیار ہو جو اللہ نے اس پر فرض کیا ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ باپ اپنے بچہ کی وجہ سے ماں کو نقصان نہ پہنچائے۔ اس کی صورت یہ ہے مثلاً باپ ماں کو دودھ پلانے سے روکے اور خواہ مخواہ کسی دوسری عورت کو دودھ پلانے کے لیے مقرر کرے۔ البتہ اگر ماں اور باپ اپنی خوشی سے کسی دوسری عورت کو دودھ پلانے کے لیے مقرر کریں تو دونوں پر کچھ گناہ نہ ہو گا اور اگر وہ والد اور والدہ دونوں اپنی رضا مندی اور مشورہ سے بچہ کا دودھ چھڑانا چاہیں تو پھر ان پر کچھ گناہ نہ ہو گا (گو ابھی مدت رخصت باقی ہو) «فصال‏» کے معنی دودھ چھڑانا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 5359
حدثنا ابن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن ابن شهاب، اخبرني عروة، ان عائشة رضي الله عنها، قالت:"جاءت هند بنت عتبة، فقالت: يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل مسيك، فهل علي حرج ان اطعم من الذي له عيالنا ؟ قال: لا، إلا بالمعروف".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس بن یزید نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوسفیان (ان کے شوہر) بہت بخیل ہیں، تو کیا میرے لیے اس میں کوئی گناہ ہے اگر میں ان کے مال میں سے (اس کے پیٹھ پیچھے) اپنے بچوں کو کھلاؤں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، لیکن دستور کے مطابق ہونا چاہیے۔

Share this: