احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: 5- بَابُ ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا}:
باب: ادریس علیہ السلام کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا ”اور ہم نے ان کو بلند مکان (آسمان) پر اٹھا لیا تھا“۔
قال ابن عباس: يذكر بخير سلام على إل ياسين سورة الصافات آية 130 إنا كذلك نجزي المحسنين سورة الصافات آية 131 إنه من عبادنا المؤمنين سورة الصافات آية 132 يذكر عن ابن مسعود وابن عباس ان إلياس هو إدريس.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «تركنا عليه في الآخرين‏» کے متعلق کہا کہ بھلائی کے ساتھ انہیں یاد کیا جاتا رہے گا۔ سلامتی ہو الیاسین پر، بیشک ہم اسی طرح مخلصین کو بدلہ دیتے ہیں۔ بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔ ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ الیاس، ادریس علیہ السلام کا نام تھا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3342
قال عبدان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، ح حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، قال: قال انس بن مالك كان ابو ذر رضي الله عنه يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"فرج سقف بيتي وانا بمكة فنزل جبريل ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فافرغها في صدري، ثم اطبقه، ثم اخذ بيدي فعرج بي إلى السماء فلما جاء إلى السماء الدنيا، قال جبريل: لخازن السماء افتح، قال: من هذا ؟ قال: هذا جبريل، قال: معك احد، قال: معي محمد، قال: ارسل إليه، قال: نعم، فافتح فلما علونا السماء الدنيا إذا رجل عن يمينه اسودة وعن يساره اسودة، فإذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت: من هذا يا جبريل ؟، قال: هذا آدم وهذه الاسودة عن يمينه وعن شماله نسم بنيه فاهل اليمين منهم اهل الجنة والاسودة التي عن شماله اهل النار، فإذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، ثم عرج بي جبريل حتى اتى السماء الثانية، فقال: لخازنها افتح، فقال له: خازنها مثل ما، قال: الاول ففتح، قال انس: فذكر انه وجد في السموات إدريس وموسى وعيسى وإبراهيم ولم يثبت لي كيف منازلهم غير انه قد ذكر انه وجد آدم في السماء الدنيا و إبراهيم في السادسة، وقال انس: فلما مر جبريل بإدريس، قال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، فقلت: من هذا ؟، قال: هذا إدريس ثم مررت بموسى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قلت: من هذا ؟ قال: هذا موسى ثم مررت بعيسى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قلت: من هذا ؟ قال: عيسى ثم مررت بإبراهيم، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت: من هذا ؟، قال: هذا إبراهيم، قال: واخبرني ابن حزم ان ابن عباس وابا حية الانصاري كانا يقولان، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى اسمع صريف الاقلام، قال: ابن حزم وانس بن مالك رضي الله عنهما، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ففرض الله علي خمسين صلاة فرجعت بذلك حتى امر بموسى، فقال موسى: ما الذي فرض على امتك، قلت: فرض عليهم خمسين صلاة، قال: فراجع ربك فإن امتك لا تطيق ذلك فرجعت فراجعت ربي فوضع شطرها فرجعت إلى موسى، فقال: راجع ربك فذكر مثله فوضع شطرها فرجعت إلى موسى فاخبرته، فقال: راجع ربك فإن امتك لا تطيق ذلك فرجعت فراجعت ربي، فقال: هي خمس وهي خمسون لا يبدل القول لدي فرجعت إلى موسى، فقال: راجع ربك، فقلت: قد استحييت من ربي، ثم انطلق حتى اتى بي السدرة المنتهى فغشيها الوان لا ادري ما هي، ثم ادخلت الجنة فإذا فيها جنابذ اللؤلؤ وإذا ترابها المسك".
عبدان نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی اور انہیں زہری نے، (دوسری سند) اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ نے، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھر کی چھت کھولی گئی۔ میرا قیام ان دنوں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف لے کر چلے، جب آسمان دنیا پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو، پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں جبرائیل، پھر پوچھا کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پوچھا کہ انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا۔ جواب دیا کہ ہاں، اب دروازہ کھلا، جب ہم آسمان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی، کچھ انسانی روحیں ان کے دائیں طرف تھیں اور کچھ بائیں طرف، جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو پڑتے۔ انہوں نے کہا خوش آمدید، نیک نبی، نیک بیٹے! میں نے پوچھا، جبرائیل! یہ صاحب کون بزرگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ انسانی روحیں ان کے دائیں اور بائیں طرف تھیں ان کی اولاد بنی آدم کی روحیں تھیں ان کے جو دائیں طرف تھیں وہ جنتی تھیں اور جو بائیں طرف تھیں وہ دوزخی تھیں، اسی لیے جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو روتے تھے، پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے اوپر لے کر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے، اس آسمان کے داروغہ سے بھی انہوں نے کہا کہ دروازہ کھولو، انہوں نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے جو پہلے آسمان پر ہو چکے تھے، پھر دروازہ کھولا، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے تفصیل سے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آسمانوں پر ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو پایا، لیکن انہوں نے ان انبیاء کرام کے مقامات کی کوئی تخصیص نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا (پہلے آسمان پر) پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے پر اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب جبرائیل علیہ السلام، ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا خوش آمدید، نیک نبی، نیک بھائی، میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر میں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انہوں نے بھی کہا خوش آمدید نیک نبی، نیک بھائی، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ تو بتایا کہ عیسیٰ علیہ السلام۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے فرمایا کہ خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں، ابن شہاب سے زہری نے بیان کیا اور مجھے ایوب بن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوحیہ انصاری رضی اللہ عنہم بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مجھے اوپر لے کر چڑھے اور میں اتنے بلند مقام پر پہنچ گیا جہاں سے قلم کے لکھنے کی آواز صاف سننے لگی تھی، ابوبکر بن حزم نے بیان کیا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے پچاس وقت کی نمازیں مجھ پر فرض کیں۔ میں اس فریضہ کے ساتھ واپس ہوا اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی گئی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ پچاس وقت کی نمازیں ان پر فرض ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں، کیونکہ آپ کی امت میں اتنی نمازوں کی طاقت نہیں ہے، چنانچہ میں واپس ہوا اور رب العالمین کے دربار میں مراجعت کی، اس کے نتیجے میں اس کا ایک حصہ کم کر دیا گیا، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور اس مرتبہ بھی انہوں نے کہا کہ اپنے رب سے پھر مراجعت کریں پھر انہوں نے اپنی تفصیلات کا ذکر کیا کہ رب العالمین نے ایک حصہ کی پھر کمی کر دی، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور انہیں خبر کی، انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے مراجعت کریں، کیونکہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے، پھر میں واپس ہوا اور اپنے رب سے پھر مراجعت کی، اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ فرما دیا کہ نمازیں پانچ وقت کی کر دی گئیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ہی باقی رکھا گیا، ہمارا قول بدلا نہیں کرتا۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے اب بھی اسی پر زور دیا کہ اپنے رب سے آپ کو پھر مراجعت کرنی چاہئے۔ لیکن میں نے کہا کہ مجھے اللہ پاک سے باربار درخواست کرتے ہوئے اب شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر آگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لائے جہاں مختلف قسم کے رنگ نظر آئے، جنہوں نے اس درخت کو چھپا رکھا تھا میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے۔ اس کے بعد مجھے جنت میں داخل کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں اور اس کی مٹی مشک کی طرح خوشبودار تھی۔

Share this: