احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

24: 23- بَابُ قَتْلُ حَمْزَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بیان۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4072
حدثني ابو جعفر محمد بن عبد الله حدثنا حجين بن المثنى حدثنا عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة عن عبد الله بن الفضل عن سليمان بن يسار عن جعفر بن عمرو بن امية الضمري قال خرجت مع عبيد الله بن عدي بن الخيار، فلما قدمنا حمص قال لي عبيد الله هل لك في وحشي نساله عن قتل حمزة قلت نعم. وكان وحشي يسكن حمص فسالنا عنه فقيل لنا هو ذاك في ظل قصره، كانه حميت. قال فجئنا حتى وقفنا عليه بيسير، فسلمنا، فرد السلام، قال وعبيد الله معتجر بعمامته، ما يرى وحشي إلا عينيه ورجليه، فقال عبيد الله يا وحشي اتعرفني قال فنظر إليه ثم قال لا والله إلا اني اعلم ان عدي بن الخيار تزوج امراة يقال لها ام قتال بنت ابي العيص، فولدت له غلاما بمكة، فكنت استرضع له، فحملت ذلك الغلام مع امه، فناولتها إياه، فلكاني نظرت إلى قدميك. قال فكشف عبيد الله عن وجهه ثم قال الا تخبرنا بقتل حمزة قال نعم، إن حمزة قتل طعيمة بن عدي بن الخيار ببدر، فقال لي مولاي جبير بن مطعم إن قتلت حمزة بعمي فانت حر، قال فلما ان خرج الناس عام عينين- وعينين جبل بحيال احد، بينه وبينه واد- خرجت مع الناس إلى القتال، فلما اصطفوا للقتال خرج سباع فقال هل من مبارز قال فخرج إليه حمزة بن عبد المطلب فقال يا سباع يا ابن ام انمار مقطعة البظور، اتحاد الله ورسوله صلى الله عليه وسلم قال ثم شد عليه فكان كامس الذاهب- قال- وكمنت لحمزة تحت صخرة فلما دنا مني رميته بحربتي، فاضعها في ثنته حتى خرجت من بين وركيه- قال- فكان ذاك العهد به، فلما رجع الناس رجعت معهم فاقمت بمكة، حتى فشا فيها الإسلام، ثم خرجت إلى الطائف، فارسلوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، فقيل لي إنه لا يهيج الرسل- قال- فخرجت معهم حتى قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رآني قال: «آنت وحشي». قلت نعم. قال: «انت قتلت حمزة». قلت قد كان من الامر ما بلغك. قال: «فهل تستطيع ان تغيب وجهك عني». قال فخرجت، فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج مسيلمة الكذاب قلت لاخرجن إلى مسيلمة لعلي اقتله فاكافئ به حمزة- قال- فخرجت مع الناس، فكان من امره ما كان- قال- فإذا رجل قائم في ثلمة جدار، كانه جمل اورق ثائر الراس- قال- فرميته بحربتي، فاضعها بين ثدييه حتى خرجت من بين كتفيه- قال- ووثب إليه رجل من الانصار، فضربه بالسيف على هامته. قال: قال عبد الله بن الفضل فاخبرني سليمان بن يسار انه سمع عبد الله بن عمر يقول فقالت جارية على ظهر بيت وا امير المؤمنين، قتله العبد الاسود.
مجھ سے ابو جعفر محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حجین بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن فضل نے، ان سے سلیمان بن یسار نے، ان سے جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب حمص پہنچے تو مجھ سے عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا، آپ کو وحشی (ابن حرب حبشی جس نے غزوہ احد میں حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور ہندہ زوجہ ابوسفیان نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا) سے تعارف ہے۔ ہم چل کے ان سے حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں معلوم کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ضرور چلو۔ وحشی حمص میں موجود تھے۔ چنانچہ ہم نے لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنے مکان کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں، جیسے کوئی بڑا سا کپا ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم ان کے پاس آئے اور تھوڑی دیر ان کے پاس کھڑے رہے۔ پھر سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ بیان کیا کہ عبیداللہ نے اپنے عمامہ کو جسم پر اس طرح لپیٹ رکھا تھا کہ وحشی صرف ان کی آنکھیں اور پاؤں دیکھ سکتے تھے۔ عبیداللہ نے پوچھا: اے وحشی! کیا تم نے مجھے پہچانا؟ راوی نے بیان کیا کہ پھر اس نے عبیداللہ کو دیکھا اور کہا کہ نہیں، اللہ کی قسم! البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت سے نکاح کیا تھا۔ اسے ام قتال بنت ابی العیص کہا جاتا تھا پھر مکہ میں اس کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور میں اس کے لیے کسی دایا کی تلاش کے لیے گیا تھا۔ پھر میں اس بچے کو اس کی (رضاعی) ماں کے پاس لے گیا اور اس کی والدہ بھی ساتھ تھی۔ غالباً میں نے تمہارے پاؤں دیکھے تھے۔ بیان کیا کہ اس پر عبیداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا لیا اور کہا، ہمیں تم حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات بتا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، بات یہ ہوئی کہ بدر کی لڑائی میں حمزہ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا۔ میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کو میرے چچا (طعیمہ) کے بدلے میں قتل کر دیا تو تم آزاد ہو جاؤ گے۔ انہوں نے بتایا کہ پھر جب قریش عینین کی جنگ کے لیے نکلے۔ عینین احد کی ایک پہاڑی ہے اور اس کے اور احد کے درمیان ایک وادی حائل ہے۔ تو میں بھی ان کے ساتھ جنگ کے ارادہ سے ہو لیا۔ جب (دونوں فوجیں آمنے سامنے) لڑنے کے لیے صف آراء ہو گئیں تو (قریش کی صف میں سے) سباع بن عبدالعزیٰ نکلا اور اس نے آواز دی، ہے کوئی لڑنے والا؟ بیان کیا کہ (اس کی اس دعوت مبازرت پر) امیر حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نکل کر آئے اور فرمایا، اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کے ختنے کیا کرتی تھی، تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے آیا ہے؟ بیان کیا کہ پھر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس پر حملہ کیا (اور اسے قتل کر دیا) اب وہ واقعہ گزرے ہوئے دن کی طرح ہو چکا تھا۔ وحشی نے بیان کیا کہ ادھر میں ایک چٹان کے نیچے حمزہ رضی اللہ عنہ کی تاک میں تھا اور جوں ہی وہ مجھ سے قریب ہوئے، میں نے ان پر اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا، نیزہ ان کی ناف کے نیچے جا کر لگا اور ان کی سرین کے پار ہو گیا۔ بیان کیا کہ یہی ان کی شہادت کا سبب بنا، پھر جب قریش واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آ گیا اور مکہ میں مقیم رہا۔ لیکن جب مکہ بھی اسلامی سلطنت کے تحت آ گیا تو میں طائف چلا گیا۔ طائف والوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قاصد بھیجا تو مجھ سے وہاں کے لوگوں نے کہا کہ انبیاء کسی پر زیادتی نہیں کرتے (اس لیے تم مسلمان ہو جاؤ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد تمہاری پچھلی تمام غلطیاں معاف ہو جائیں گی) چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آپ نے مجھے دیکھا تو دریافت فرمایا، کیا تمہارا ہی نام وحشی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ہی نے حمزہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے عرض کیا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملے میں معلوم ہے وہی صحیح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: کیا تم ایسا کر سکتے ہو کہ اپنی صورت مجھے کبھی نہ دکھاؤ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نکل گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو مسیلمہ کذاب نے خروج کیا۔ اب میں نے سوچا کہ مجھے مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ ممکن ہے میں اسے قتل کر دوں اور اس طرح حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدل ہو سکے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی اس کے خلاف جنگ کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکلا۔ اس سے جنگ کے واقعات سب کو معلوم ہیں۔ بیان کیا کہ (میدان جنگ میں) میں نے دیکھا کہ ایک شخص (مسیلمہ) ایک دیوار کی دراز سے لگا کھڑا ہے۔ جیسے گندمی رنگ کا کوئی اونٹ ہو۔ سر کے بال منتشر تھے۔ بیان کیا کہ میں نے اس پر بھی اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا۔ نیزہ اس کے سینے پر لگا اور شانوں کو پار کر گیا۔ بیان کیا کہ اتنے میں ایک صحابی انصاری جھپٹے اور تلوار سے اس کی کھوپڑی پر مارا۔ انہوں (عبدالعزیز بن عبداللہ) نے کہا، ان سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا کہ پھر مجھے سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کر رہے تھے کہ (مسیلمہ کے قتل کے بعد) ایک لڑکی نے چھت پر کھڑی ہو کر اعلان کیا کہ امیرالمؤمنین کو ایک کالے غلام (یعنی وحشی) نے قتل کر دیا۔

Share this: