احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

4: 4- بَابُ جِوَارِ أَبِي بَكْرٍ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَقْدِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا (ایک مشرک کو) امان دینا اور اس کے ساتھ آپ کا عہد کرنا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2297
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، قال ابن شهاب: فاخبرني عروة بن الزبير، ان عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:"لم اعقل ابوي قط إلا وهما يدينان الدين"، وقال ابو صالح: حدثني عبد الله، عن يونس، عن الزهري، قال:اخبرني عروة بن الزبير، ان عائشة رضي الله عنها، قالت: لم اعقل ابوي قط إلا وهما يدينان الدين، ولم يمر علينا يوم إلا ياتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، طرفي النهار بكرة وعشية، فلما ابتلي المسلمون، خرج ابو بكر مهاجرا قبل الحبشة، حتى إذا بلغ برك الغماد، لقيه ابن الدغنة وهو سيد القارة، فقال: اين تريد يا ابا بكر ؟ فقال ابو بكر: اخرجني قومي، فانا اريد ان اسيح في الارض فاعبد ربي، قال ابن الدغنة: إن مثلك لا يخرج ولا يخرج، فإنك تكسب المعدوم، وتصل الرحم، وتحمل الكل، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق، وانا لك جار فارجع، فاعبد ربك ببلادك، فارتحل ابن الدغنة، فرجع مع ابي بكر فطاف في اشراف كفار قريش، فقال لهم: إن ابا بكر لا يخرج مثله ولا يخرج، اتخرجون رجلا يكسب المعدوم ويصل الرحم، ويحمل الكل، ويقري الضيف، ويعين على نوائب الحق، فانفذت قريش جوار ابن الدغنة، وآمنوا ابا بكر، وقالوا لابن الدغنة: مر ابا بكر فليعبد ربه في داره، فليصل، وليقرا ما شاء، ولا يؤذينا بذلك، ولا يستعلن به، فإنا قد خشينا ان يفتن ابناءنا ونساءنا، قال ذلكابن الدغنة لابي بكر، فطفق ابو بكر يعبد ربه في داره، ولا يستعلن بالصلاة، ولا القراءة في غير داره، ثم بدا لابي بكر فابتنى مسجدا بفناء داره وبرز، فكان يصلي فيه ويقرا القرآن، فيتقصف عليه نساء المشركين، وابناؤهم، يعجبون وينظرون إليه، وكان ابو بكر رجلا بكاء، لا يملك دمعه حين يقرا القرآن، فافزع ذلك اشراف قريش من المشركين، فارسلوا إلى ابن الدغنة فقدم عليهم، فقالوا له: إنا كنا اجرنا ابا بكر على ان يعبد ربه في داره، وإنه جاوز ذلك، فابتنى مسجدا بفناء داره، واعلن الصلاة والقراءة، وقد خشينا ان يفتن ابناءنا ونساءنا فاته، فإن احب ان يقتصر على ان يعبد ربه في داره فعل، وإن ابى إلا ان يعلن ذلك، فسله ان يرد إليك ذمتك، فإنا كرهنا ان نخفرك ولسنا مقرين لابي بكر الاستعلان، قالت عائشة: فاتى ابن الدغنة ابا بكر، فقال: قد علمت الذي عقدت لك عليه، فإما ان تقتصر على ذلك، وإما ان ترد إلي ذمتي، فإني لا احب ان تسمع العرب، اني اخفرت في رجل عقدت له، قال ابو بكر: إني ارد إليك جوارك، وارضى بجوار الله ورسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ بمكة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد اريت دار هجرتكم، رايت سبخة ذات نخل بين لابتين وهما الحرتان، فهاجر من هاجر قبل المدينة، حين ذكر ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورجع إلى المدينة بعض من كان هاجر إلى ارض الحبشة، وتجهز ابو بكر مهاجرا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: على رسلك، فإني ارجو ان يؤذن لي، قال ابو بكر: هل ترجو ذلك بابي انت ؟ قال: نعم، فحبس ابو بكر نفسه على رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصحبه، وعلف راحلتين كانتا عنده ورق السمر اربعة اشهر.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیروکار پایا۔ اور ابوصالح سلیمان نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا۔ ان سے یونس نے، اور ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا۔ جب آپ برک غماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا، ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان (اپنے وطن سے) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے۔ کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی (اپنے وطن سے) نہیں نکل سکتا۔ اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے۔ اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی۔ پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو اس کی تاکید کر دینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کر لیا کریں۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں، اور قرآن کی تلاوت کریں، لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں اور نہ اس کا اظہار کریں، کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کرنے لگے۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے۔ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ اب آپ ظاہر ہو کر وہاں نماز پڑھنے لگے۔ اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے۔ پس پھر کیا تھا مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے، لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ۔ اگر وہ اس پر تیار ہو جائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں، پھر تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہو کہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کر دیں۔ کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑ دیں۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا۔ اب یا تو آپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کر دیں۔ کیونکہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان توڑ دی گئی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے۔ جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جلدی نہ کرو، امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! کیا آپ کو اس کی امید ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ضرور! چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے، انہیں چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے۔

Share this: