احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1b: 1 م- بَابُ الْمُكَاتَبِ وَنُجُومِهِ فِي كُلِّ سَنَةٍ نَجْمٌ:
باب: مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان، ہر سال میں ایک قسط کی ادائیگی لازم ہو گی۔
وقوله: والذين يبتغون الكتاب مما ملكت ايمانكم فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا وآتوهم من مال الله الذي آتاكم سورة النور آية 33 وقال روح: عن ابن جريج، قلت لعطاء:"اواجب علي إذا علمت له مالا ان اكاتبه، قال: ما اراه إلا واجبا، وقاله: عمرو بن دينار، قلت لعطاء: تاثره عن احد، قال: لا، ثم اخبرني ان موسى بن انس اخبره، ان سيرين سال انسا المكاتبة وكان كثير المال، فابى فانطلق إلى عمر رضي الله عنه، فقال: كاتبه، فابى، فضربه بالدرة، ويتلو عمر فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا، فكاتبه"
‏‏‏‏ اور (سورۃ النور میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ «والذين يبتغون الكتاب مما ملكت أيمانكم فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا وآتوهم من مال الله الذي آتاكم‏» تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو بھی مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں۔ ان سے مکاتب کر لو، اگر ان کے اندر تم کوئی خیر پاؤ۔ (کہ وہ وعدہ پورا کر سکیں گے) اور انہیں اللہ کے اس مال میں سے مدد بھی دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے۔ روح بن عبادہ نے ابن جریح رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے پوچھا کیا اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میرے غلام کے پاس مال ہے اور وہ مکاتب بننا چاہتا ہے تو کیا مجھ پر واجب ہو جائے گا کہ میں اس سے مکاتبت کر لوں؟ انہوں نے کہا کہ میرا خیال تو یہی ہی کہ (ایسی حالت میں کتابت کا معاملہ) واجب ہو جائے گا۔ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا، کیا آپ اس سلسلے میں کسی سے روایت بھی بیان کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ (پھر انہیں یاد آیا) اور مجھے انہوں نے خبر دی کہ موسیٰ بن انس نے انہیں خبر دی کہ سیرین (ابن سیرین رحمہ اللہ کے والد) نے انس رضی اللہ عنہ سے مکاتب ہونے کی درخواست کی۔ (یہ انس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے) جو مالدار بھی تھے۔ لیکن انس رضی اللہ عنہ نے انکار کیا، اس پر سیرین، عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے (انس رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ کتابت کا معاملہ کر لے۔ انہوں نے پھر بھی انکار کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں درے سے مارا، اور یہ آیت پڑھی «فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا‏» غلاموں میں اگر خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کر لو۔ چنانچہ انس رضی اللہ عنہ نے کتابت کا معاملہ کر لیا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2560
وقال الليث: حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال عروة: قالت عائشة رضي الله عنها:"إن بريرة دخلت عليها تستعينها في كتابتها وعليها خمسة اواق نجمت عليها في خمس سنين، فقالت لها عائشة: ونفست فيها، ارايت إن عددت لهم عدة واحدة ايبيعك اهلك فاعتقك فيكون ولاؤك لي، فذهبت بريرة إلى اهلها، فعرضت ذلك عليهم، فقالوا: لا، إلا ان يكون لنا الولاء، قالت عائشة: فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: اشتريها فاعتقيها، فإنما الولاء لمن اعتق، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، من اشترط شرطا ليس في كتاب الله فهو باطل، شرط الله احق واوثق".
لیث نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اپنے مکاتبت کے معاملہ میں ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے۔ بریرہ رضی اللہ عنہا کو پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال کے اندر پانچ قسطوں میں ادا کرنی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، انہیں خود بریرہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کرانے میں دلچسپی ہو گئی تھی،(عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا) کہ یہ بتاؤ اگر میں انہیں ایک ہی مرتبہ (چاندی کے یہ پانچ اوقیہ) ادا کر دوں تو کیا تمہارے مالک تمہیں میرے ہاتھ بیچ دیں گے؟ پھر میں تمہیں آزاد کر دوں گی اور تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہو جائے گی۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے ہاں گئیں اور ان کے آگے یہ صورت رکھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ صورت اس وقت منظور کر سکتے ہیں کہ رشتہ ولاء ہمارے ساتھ رہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو خرید کر بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر دے، ولاء تو اس کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو (معاملات میں) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی جڑ (دلیل) بنیاد کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جس کی کوئی اصل (دلیل، بنیاد) کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ شرط غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی زیادہ حق اور زیادہ مضبوط ہے۔

Share this: