احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

13: 13- بَابُ الصُّلْحِ بَيْنَ الْغُرَمَاءِ وَأَصْحَابِ الْمِيرَاثِ وَالْمُجَازَفَةِ فِي ذَلِكَ:
باب: میت کے قرض خواہوں اور وارثوں میں صلح کا بیان اور قرض کا اندازہ سے ادا کرنا۔
وقال ابن عباس: لا باس ان يتخارج الشريكان فياخذ هذا دينا وهذا عينا، فإن توي لاحدهما لم يرجع على صاحبه.
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر دو شریک آپس میں یہ ٹھہرا لیں کہ ایک (اپنے حصہ کو بدل) قرض وصول کرے اور دوسرا نقد مال لے لے تو کوئی حرج نہیں۔ اب اگر ایک شریک کا حصہ تلف ہو جائے (مثلاً قرضہ ڈوب جائے) تو وہ اپنے شریک سے کچھ نہیں لے سکتا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2709
حدثني محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا عبيد الله، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:"توفي ابي وعليه دين فعرضت على غرمائه ان ياخذوا التمر بما عليه، فابوا، ولم يروا ان فيه وفاء، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: إذا جددته فوضعته في المربد آذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء ومعه ابو بكر، وعمر، فجلس عليه ودعا بالبركة، ثم قال: ادع غرماءك فاوفهم، فما تركت احدا له على ابي دين إلا قضيته، وفضل ثلاثة عشر وسقا سبعة عجوة وستة لون او ستة عجوة وسبعة لون، فوافيت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم المغرب، فذكرت ذلك له فضحك، فقال: ائت ابا بكر، وعمر فاخبرهما، فقالا: لقد علمنا إذ صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما صنع ان سيكون ذلك". وقال هشام: عن وهب، عن جابر صلاة العصر، ولم يذكر ابا بكر ولا ضحك، وقال: وترك ابي عليه ثلاثين وسقا دينا. وقال ابن إسحاق: عن وهب، عن جابر صلاة الظهر.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میرے والد جب شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ صورت رکھی کہ قرض کے بدلے میں وہ (اس سال کی کھجور کے) پھل لے لیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے قرض پورا نہیں ہو سکے گا، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب پھل توڑ کر مربد (وہ جگہ جہاں کھجور خشک کرتے تھے) میں جمع کر دو (تو مجھے خبر دو) چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ساتھ میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھجور کے ڈھیر پر بیٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا کہ اب اپنے قرض خواہوں کو بلا لا اور ان کا قرض ادا کر دے، چنانچہ کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کا میرے باپ پر قرض رہا اور میں نے اسے ادا نہ کر دیا ہو۔ پھر بھی تیرہ وسق کھجور باقی بچ گئی۔ سات وسق عجوہ میں سے اور چھ وسق لون میں سے، یا چھ وسق عجوہ میں سے اور سات وسق لون میں سے، بعد میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے وقت جا کر ملا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور فرمایا، ابوبکر اور عمر کے یہاں جا کر انہیں بھی یہ واقعہ بتا دو۔ چنانچہ میں نے انہیں بتلایا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کرنا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کیا۔ ہمیں جبھی معلوم ہو گیا تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔ ہشام نے وہب سے اور انہوں نے جابر سے عصر کے وقت (جابر رضی اللہ عنہ کی حاضری کا) ذکر کیا ہے اور انہوں نے نہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور نہ ہنسنے کا، یہ بھی بیان کیا کہ (جابر رضی اللہ عنہ نے کہا) میرے والد اپنے اوپر تیس وسق قرض چھوڑ گئے تھے اور ابن اسحاق نے وہب سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے ظہر کی نماز کا ذکر کیا ہے۔

Share this: