احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

47: 47- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا}:
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) یوں فرمانا ”اے رسول! کہہ دے اچھا تورات لاؤ اور اسے پڑھو“۔
وقول النبي صلى الله عليه وسلم: اعطي اهل التوراة التوراة فعملوا بها واعطي اهل الإنجيل الإنجيل فعملوا به واعطيتم القرآن فعملتم به، وقال ابو رزين يتلونه حق تلاوته يتبعونه ويعملون به حق عمله يقال يتلى يقرا حسن التلاوة حسن القراءة للقرآن لا يمسه لا يجد طعمه ونفعه إلا من آمن بالقرآن، ولا يحمله بحقه إلا الموقن لقوله تعالى: مثل الذين حملوا التوراة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل اسفارا بئس مثل القوم الذين كذبوا بآيات الله والله لا يهدي القوم الظالمين سورة الجمعة آية 5 وسمى النبي صلى الله عليه وسلم الإسلام، والإيمان، والصلاة عملا، قال ابو هريرة، قال النبي صلى الله عليه وسلم لبلال: اخبرني بارجى عمل عملته في الإسلام، قال: ما عملت عملا ارجى عندي اني لم اتطهر إلا صليت، وسئل اي العمل افضل ؟، قال: إيمان بالله ورسوله، ثم الجهاد، ثم حج مبرور.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوں فرمانا کہ توراۃ والے توراۃ دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ انجیل والے انجیل دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ تم قرآن دئیے گئے تم نے اس پر عمل کیا۔ اور ابورزین نے کہا «يتلونه‏» کا مطلب یہ ہے کہ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس پر جیسا عمل کرنا چاہئیے ویسا عمل کرتے ہیں تو تلاوت کرنا ایک عمل ٹھہرا۔ عرب کہتے ہیں «يتلى» یعنی پڑھا جاتا ہے اور کہتے ہیں فلاں شخص کی تلاوت یا قرآت اچھی ہے اور قرآن میں (سورۃ الواقعہ میں) ہے «لا يمسه‏» یعنی قرآن کا مزہ وہی پائیں گے اس کا فائدہ وہی اٹھائیں گے جو کفر سے پاک یعنی قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کو اس کے حق کے ساتھ وہی اٹھائے گا جس کو آخرت پر یقین ہو گا کیونکہ (سورۃ الجمعہ میں) فرمایا «مثل الذين حملوا التوراة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل أسفارا بئس مثل القوم الذين كذبوا بآيات الله والله لا يهدي القوم الظالمين‏» ان لوگوں کی مثال جن سے توراۃ اٹھائی گئی پھر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا، (اس پر عمل نہیں کیا) ایسی ہے جیسے گدھے کی مثال جس پر کتابیں لدی ہوں۔ جن لوگوں نے اللہ کی باتوں کو جھٹلایا ان کی ایسی ہی بری مثال ہے اور اللہ ایسے شریر لوگوں کو راہ پر نہیں لگاتا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور ایمان دونوں کو مکمل فرمایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے اپنا وہ زیادہ امید کا عمل بیان کرو جس کو تم نے اسلام کے زمانہ میں کیا ہو۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے اسلام کے زمانہ میں اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا ہے کہ میں نے جب وضو کیا تو اس کے بعد تحیۃ الوضو کی دو رکعت نماز پڑھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا پھر وہ حج جس کے بعد گناہ نہ ہو۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 7533
حدثنا عبدان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، اخبرني سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"إنما بقاؤكم فيمن سلف من الامم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس اوتي اهل التوراة التوراة، فعملوا بها حتى انتصف النهار ثم عجزوا، فاعطوا قيراطا قيراطا، ثم اوتي اهل الإنجيل الإنجيل، فعملوا به حتى صليت العصر، ثم عجزوا فاعطوا قيراطا قيراطا، ثم اوتيتم القرآن فعملتم به حتى غربت الشمس، فاعطيتم قيراطين قيراطين، فقال اهل الكتاب: هؤلاء اقل منا عملا واكثر اجرا، قال الله: هل ظلمتكم من حقكم شيئا ؟، قالوا: لا، قال: فهو فضلي اوتيه من اشاء".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گذشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمہارا وجود ایسا ہے جیسے عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت، اہل توریت کو توریت دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا اور وہ عاجز ہو گئے۔ پھر انہیں ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہو گیا، تمہیں دو دو قیراط دئیے گئے، اس پر کتاب نے کہا کہ یہ ہم سے عمل میں کم ہیں اور اجر میں زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں نے تمہارا حق دینے میں کوئی ظلم کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔

Share this: