احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

12: 12- بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنِ احْتِيَالِ الْمَرْأَةِ مَعَ الزَّوْجِ وَالضَّرَائِرِ:
باب: عورت کا اپنے شوہر یا سوکنوں کے ساتھ حیلہ کرنے کی ممانعت۔
وما نزل على النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك.
‏‏‏‏ اور جو اس باب میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اس کا بیان۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 6972
حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب الحلواء ويحب العسل، وكان إذا صلى العصر اجاز على نسائه فيدنو منهن، فدخل على حفصة، فاحتبس عندها اكثر مما كان يحتبس، فسالت عن ذلك ؟، فقال لي: اهدت لها امراة من قومها عكة عسل، فسقت رسول الله صلى الله عليه وسلم منه شربة، فقلت: اما والله لنحتالن له، فذكرت ذلك لسودة، قلت: إذا دخل عليك فإنه سيدنو منك، فقولي له: يا رسول الله اكلت مغافير ؟، فإنه سيقول لا، فقولي له: ما هذه الريح ؟، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يشتد عليه ان يوجد منه الريح، فإنه سيقول: سقتني حفصة شربة عسل، فقولي له: جرست نحله العرفط، وساقول ذلك، وقوليه انت يا صفية، فلما دخل على سودة، قلت: تقول سودة: والذي لا إله إلا هو لقد كدت ان ابادره بالذي قلت لي وإنه لعلى الباب فرقا منك، فلما دنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله اكلت مغافير ؟، قال: لا: قلت: فما هذه الريح ؟، قال: سقتني حفصة شربة عسل، قلت: جرست نحله العرفط، فلما دخل علي، قلت له مثل ذلك، ودخل على صفية، فقالت له مثل ذلك، فلما دخل على حفصة، قالت له: يا رسول الله، الا اسقيك منه ؟، قال: لا حاجة لي به، قالت: تقول سودة: سبحان الله، لقد حرمناه، قالت: قلت لها: اسكتي".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ (یعنی میٹھی چیز) اور شہد پسند کرتے تھے اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ازواج سے (ان میں سے کسی کے حجرہ میں جانے کے لیے) اجازت لیتے تھے اور ان کے پاس جاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے اور ان کے یہاں اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے جتنی دیر تک ٹھہرنے کا آپ کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی قوم کی ایک خاتون نے شہد کی ایک کپی انہیں ہدیہ کی تھی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے اس پر کہا کہ اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک حیلہ کروں گی چنانچہ میں نے اس کا ذکر سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا اور کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے یہاں آئیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے اس وقت تم آپ سے کہنا یا رسول اللہ! شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ اس پر آپ جواب دیں گے کہ نہیں۔ تم کہنا کہ پھر یہ بو کس چیز کی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصہ سے بو آئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب یہ دیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ اس پر کہنا کہ شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سودہ کے یہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تمہارے خوف سے قریب تھا کہ میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات جلدی میں کہہ دیتی جبکہ آپ دروازے ہی پر تھے۔ آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب آئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا پھر بو کیسی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے میں نے کہا اس شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جب آپ تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا۔ اس کے بعد جب حفصہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ شہد میں پھر آپ کو پلاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ بیان کیا ہے کہ اس پر سودہ رضی اللہ عنہا بولیں۔ سبحان اللہ یہ ہم نے کیا کیا گویا شہد آپ پر حرام کر دیا، میں نے کہا چپ رہو۔

Share this: