احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: فِي الْمَظَالِمِ والغصب
باب: لوگوں پر ظلم کرنے اور مال غصب کرنے کے بیان میں۔
، وقال مجاهد: مهطعين سورة إبراهيم آية 43 مديمي النظر، ويقال مسرعين لا يرتد إليهم طرفهم وافئدتهم هواء سورة إبراهيم آية 43 يعني جوفا لا عقول لهم، وانذر الناس يوم ياتيهم العذاب فيقول الذين ظلموا ربنا اخرنا إلى اجل قريب نجب دعوتك ونتبع الرسل اولم تكونوا اقسمتم من قبل ما لكم من زوال { 44 } وسكنتم في مساكن الذين ظلموا انفسهم وتبين لكم كيف فعلنا بهم وضربنا لكم الامثال { 45 } وقد مكروا مكرهم وعند الله مكرهم وإن كان مكرهم لتزول منه الجبال { 46 } فلا تحسبن الله مخلف وعده رسله إن الله عزيز ذو انتقام { 47 } سورة إبراهيم آية 44-47، وقول الله تعالى: ولا تحسبن الله غافلا عما يعمل الظالمون إنما يؤخرهم ليوم تشخص فيه الابصار { 42 } مهطعين مقنعي رءوسهم سورة إبراهيم آية 41-42 رافعي المقنع، والمقمح واحد.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم میں فرمایا اور ظالموں کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کو غافل نہ سمجھنا۔ اور اللہ تعالیٰ تو انہیں صرف ایک ایسے دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ اور وہ سر اوپر کو اٹھائے بھاگے جا رہے ہوں گے۔ «مقنع» ‏‏‏‏ اور «مقمح» دونوں کے معنے ایک ہی ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ «مهطعين‏» کے معنے برابر نظر ڈالنے والے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «مهطعين‏» کے معنی جلدی بھاگنے والا، ان کی نگاہ خود ان کی طرف نہ لوٹے گی۔ اور دلوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے کہ عقل بالکل نہیں رہے گی اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے محمد! لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس دن ان پر عذاب آ اترے گا، جو لوگ ظلم کر چکے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! (عذاب کو) کچھ دنوں کے لیے ہم سے اور مؤخر کر دے، تو اب کی بار ہم تیرا حکم سن لیں گے اور تیرے انبیاء کی تابعداری کریں گے۔ جواب ملے گا کیا تم نے پہلے یہ قسم نہیں کھائی تھی کہ تم پر کبھی ذوال نہیں آئے گا؟ اور تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ چکے ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر یہ بھی ظاہر ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ ہم نے تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کر دی ہیں۔ انہوں نے برے مکر اختیار کیے اور اللہ کے یہاں ان کے یہ بدترین مکر لکھ لیے گئے۔ اگرچہ ان کے مکر ایسے تھے کہ ان سے پہاڑ بھی ہل جاتے (مگر وہ سب بیکار ثابت ہوئے) پس اللہ کے متعلق ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ وہ اپنے انبیاء سے کئے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب اور بدلہ لینے والا ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2440
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، اخبرنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن ابي المتوكل الناجي، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"إذا خلص المؤمنون من النار، حبسوا بقنطرة بين الجنة والنار، فيتقاصون مظالم كانت بينهم في الدنيا، حتى إذا نقوا وهذبوا اذن لهم بدخول الجنة، فوالذي نفس محمد بيده لاحدهم بمسكنه في الجنة ادل بمنزله كان في الدنيا". وقال يونس بن محمد: حدثنا شيبان، عن قتادة، حدثنا ابو المتوكل.
ہم سے اسحٰق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو معاذ بن ہشام نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔ یونس بن محمد نے بیان کیا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا۔

Share this: