احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ مَا جَاءَ فِي الإِصْلاَحِ بَيْنَ النَّاسِ:
باب: لوگوں میں صلح کرانے کا ثواب۔
وقول الله تعالى: لا خير في كثير من نجواهم إلا من امر بصدقة او معروف او إصلاح بين الناس ومن يفعل ذلك ابتغاء مرضات الله فسوف نؤتيه اجرا عظيما سورة النساء آية 114، وخروج الإمام إلى المواضع ليصلح بين الناس باصحابه.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ نساء میں) «لا خير في كثير من نجواهم إلا من أمر بصدقة أو معروف أو إصلاح بين الناس ومن يفعل ذلك ابتغاء مرضاة الله فسوف نؤتيه أجرا عظيما‏» ان کی اکثر کانا پھونسیوں میں خیر نہیں، سو ان (سرگوشیوں) کے جو صدقہ یا اچھی بات کی طرف لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے ہوں یا لوگوں کے درمیان صلح کرائیں اور جو شخص یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو جلدی ہم اسے اجر عظیم دیں گے۔ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ امام خود اپنے اصحاب کے ساتھ مختلف مقامات پر جا کر لوگوں میں صلح کرائے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2690
حدثنا سعيد بن ابي مريم، حدثنا ابو غسان، قال: حدثني ابو حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه،"ان اناسا من بني عمرو بن عوف كان بينهم شيء، فخرج إليهم النبي صلى الله عليه وسلم في اناس من اصحابه يصلح بينهم، فحضرت الصلاة ولم يات النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء بلال فاذن بلال بالصلاة ولم يات النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء إلى ابي بكر، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم حبس وقد حضرت الصلاة، فهل لك ان تؤم الناس ؟ فقال: نعم، إن شئت، فاقام الصلاة، فتقدم ابو بكر، ثم جاء النبي صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف حتى قام في الصف الاول، فاخذ الناس بالتصفيح حتى اكثروا، وكان ابو بكر لا يكاد يلتفت في الصلاة، فالتفت، فإذا هو بالنبي صلى الله عليه وسلم وراءه، فاشار إليه بيده، فامره ان يصلي كما هو، فرفع ابو بكر يده فحمد الله واثنى عليه، ثم رجع القهقرى وراءه حتى دخل في الصف، وتقدم النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس، فلما فرغ اقبل على الناس، فقال: يا ايها الناس إذا نابكم شيء في صلاتكم اخذتم بالتصفيح، إنما التصفيح للنساء، من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله، فإنه لا يسمعه احد إلا التفت يا ابا بكر، ما منعك حين اشرت إليك لم تصل بالناس ؟ فقال: ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (قباء کے) بنو عمرو بن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہو گئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کے لیے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لا سکے۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اذان دی، ابھی تک چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے تھے اس لیے وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہدایت کے مطابق) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہو گیا ہے، کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے (نماز کے درمیان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ پہنچے۔ لوگ باربار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے۔ مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے (مگر جب باربار ایسا ہوا تو) آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پیچھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھا رہے ہیں، اسے جاری رکھیں۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد بیان کی اور الٹے پاؤں پیچھے آ گئے اور صف میں مل گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگو! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے (مردوں کو) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہئے، کیونکہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہو جائے گا۔ اے ابوبکر! جب میں نے اشارہ بھی کر دیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے؟ انہوں نے عرض کیا، ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے۔

Share this: