احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

178: 178- بَابُ كَيْفَ يُعْرَضُ الإِسْلاَمُ عَلَى الصَّبِيِّ:
باب: بچے پر اسلام کس طرح پیش کیا جائے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3055
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام، اخبرنا معمر، عن الزهري، اخبرني سالم بن عبد الله، عن ابن عمر رضي الله عنهما، انه اخبره ان عمر انطلق في رهط من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مع النبي صلى الله عليه وسلم قبل ابن صياد حتى وجدوه يلعب مع الغلمان عند اطم بني مغالة وقد قارب يومئذ ابن صياد يحتلم، فلم يشعر بشيء حتى ضرب النبي صلى الله عليه وسلم ظهره بيده، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم:"اتشهد اني رسول الله فنظر إليه ابن صياد، فقال: اشهد انك رسول الاميين، فقال: ابن صياد للنبي صلى الله عليه وسلم اتشهد اني رسول الله، قال له: النبي صلى الله عليه وسلم آمنت بالله ورسله، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ماذا ترى ؟، قال ابن صياد: ياتيني صادق وكاذب، قال النبي صلى الله عليه وسلم: خلط عليك الامر، قال النبي صلى الله عليه وسلم: إني قد خبات لك خبيئا، قال ابن صياد هو الدخ، قال النبي صلى الله عليه وسلم: اخسا فلن تعدو قدرك، قال عمر: يا رسول الله ائذن لي فيه اضرب عنقه، قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن يكنه فلن تسلط عليه وإن لم يكنه فلا خير لك في قتله".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت جن میں عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ‘ ابن صیاد (یہودی لڑکا) کے یہاں جا رہی تھی۔ آخر بنو مغالہ (ایک انصاری قبیلے) کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسے ان لوگوں نے پا لیا ‘ ابن صیاد بالغ ہونے کے قریب تھا۔ اسے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا) پتہ نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قریب پہنچ کر) اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا ‘ اور فرمایا کیا تو اس کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا ‘ پھر کہنے لگا۔ ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے نبی ہیں۔ اس کے بعد اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ آپ نے اس کا جواب (صرف اتنا) دیا کہ میں اللہ اور اس کے (سچے) انبیاء پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ‘ تو کیا دیکھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک خبر سچی آتی ہے تو دوسری جھوٹی بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ حقیقت حال تجھ پر مشتبہ ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اچھا میں نے تیرے لیے اپنے دل میں ایک بات سوچی ہے (بتا وہ کیا ہے؟) ابن صیاد بولا کہ دھواں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذلیل ہو ‘ کمبخت! تو اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ سکے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! مجھے اجازت ہو تو میں اس کی گردن مار دوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم اس پر قادر نہیں ہو سکتے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کی جان لینے میں کوئی خیر نہیں۔

Share this: