احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

28: 28- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ}{وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ شوریٰ میں) فرمانا ”مسلمانوں کا کام آپس کے صلاح اور مشورے سے چلتا ہے“ اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) فرمان ”اے پیغمبر! ان سے کاموں میں مشورہ لے“۔
وان المشاورة قبل العزم والتبين، لقوله: فإذا عزمت فتوكل على الله سورة آل عمران آية 159، فإذا عزم الرسول صلى الله عليه وسلم لم يكن لبشر التقدم على الله ورسوله وشاور النبي صلى الله عليه وسلم اصحابه يوم احد في المقام والخروج فراوا له الخروج فلما لبس لامته وعزم، قالوا: اقم فلم يمل إليهم بعد العزم، وقال: لا ينبغي لنبي يلبس لامته فيضعها حتى يحكم الله وشاور عليا، واسامة فيما رمى به اهل الإفك عائشة فسمع منهما حتى نزل القرآن فجلد الرامين، ولم يلتفت إلى تنازعهم ولكن حكم بما امره الله وكانت الائمة بعد النبي صلى الله عليه وسلم يستشيرون الامناء من اهل العلم في الامور المباحة لياخذوا باسهلها فإذا وضح الكتاب او السنة لم يتعدوه إلى غيره اقتداء بالنبي صلى الله عليه وسلم وراى ابو بكر قتال من منع الزكاة، فقال عمر: كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوا لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم واموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله، فقال ابو بكر والله لاقاتلن من فرق بين ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم تابعه بعد عمر فلم يلتفت ابو بكر إلى مشورة إذ كان عنده حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم في الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة وارادوا تبديل الدين واحكامه، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: من بدل دينه فاقتلوه وكان القراء اصحاب مشورة عمر كهولا كانوا او شبانا، وكان وقافا عند كتاب الله عز وجل.
‏‏‏‏ اور یہ بھی بیان ہے کہ مشورہ ایک کام کا مصمم عزم اور اس کے بیان کر دینے سے پہلے لینا چاہئیے جیسے فرمایا «فإذا عزمت فتوكل على الله‏» پھر جب ایک بات ٹھہرا لے (یعنی صلاح و مشورہ کے بعد) تو اللہ پر بھروسہ کر (اس کو کر گزر) پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشورے کے بعد ایک کام ٹھہرا لیں اب کسی آدمی کو اللہ اور اس کے رسول کے آگے بڑھنا درست نہیں (یعنی دوسری رائے دینا) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ ہی میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر۔ جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا ٹھہرا لیا، اب بعض لوگ کہنے لگے مدینہ ہی میں رہنا اچھا ہے۔ آپ نے ان کے قول کی طرف التفاف نہیں کیا کیونکہ (مشورے کے بعد) آپ ایک بات ٹھہرا چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب پیغمبر (لڑائی پر مستعد ہو کر) اپنی زرہ پہن لے (ہتھیار وغیرہ باندھ کر لیس ہو جائے) اب بغیر اللہ کے حکم کے اس کو اتار نہیں سکتا (اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وصل کیا)۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مشورہ کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو بہتان لگایا گیا تھا اس مقدمہ میں، اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ قرآن اترا اور آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے مارے اور علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما میں جو اختلاف رائے تھا اس پر کچھ التفات نہیں کیا (علی رضی اللہ عنہ کی رائے اوپر گزری ہے) بلکہ آپ نے اللہ کے ارشاد کے موافق حکم دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے وہ ایماندار لوگوں سے اور عالموں سے مباح کاموں میں مشورہ لیا کرتے تاکہ جو کام آسان ہو اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن اور حدیث کا حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سب پر مقدم ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جو زکوٰۃ نہیں دیتے تھے لڑنا مناسب سمجھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ کہیں جب انہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہہ لیا تو اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا، میں تو ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو ان فرضوں کو جدا کریں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکساں رکھا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی وہی رائے ہو گئی، غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر کچھ التفاف نہ کیا ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود تھا جو لوگ نماز اور زکوۃٰ میں فرق کریں، دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہئیے (وہ کافر ہو گئے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا دین بدل ڈالے (اسلام سے پھر جائے) اس کو مار ڈالو اور عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے میں وہی صحابہ شریک رہتے جو قرآن کے قاری تھے (یعنی عالم لوگ) جوان ہوں یا بوڑھے اور عمر رضی اللہ عنہ جہاں اللہ کی کتاب کا کوئی حکم سنتے بس ٹھہر جاتے اس کے موافق عمل کرتے اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 7369
حدثنا الاويسي عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، حدثني عروة، وابن المسيب، وعلقمة بن وقاص، وعبيد الله، عن عائشة رضي الله عنها، حين قال لها اهل الإفك ما قالوا ؟، قالت:"ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب، واسامة بن زيد رضي الله عنهم حين استلبث الوحي يسالهما وهو يستشيرهما في فراق اهله، فاما اسامة فاشار بالذي يعلم من براءة اهله واما علي، فقال: لم يضيق الله عليك والنساء سواها كثير وسل الجارية تصدقك، فقال: هل رايت من شيء يريبك ؟، قالت: ما رايت امرا اكثر من انها جارية حديثة السن تنام عن عجين اهلها، فتاتي الداجن، فتاكله، فقام على المنبر، فقال: يا معشر المسلمين، من يعذرني من رجل بلغني اذاه في اهلي والله ما علمت على اهلي إلا خيرا، فذكر براءة عائشة"، وقال ابو اسامة، عن هشام.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھ سے عروہ بن مسیب اور علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں وحی اس وقت تک نہیں آئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہل خانہ کو جدا کرنے کے سلسلہ میں ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے تو اسامہ رضی اللہ عنہ نے وہی مشورہ دیا جو انہیں معلوم تھا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل خانہ کی برات کا لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی پابندی تو عائد نہیں کی ہے اور اس کے سوا اور بہت سی عورتیں ہیں، باندی سے آپ دریافت فرما لیں، وہ آپ سے صحیح بات بتا دے گی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے شبہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھ کر بھی سو جاتی ہیں اور پڑوس کی بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا، اے مسلمانو! میرے معاملے میں اس سے کون نمٹے گا جس کی اذیتیں اب میرے اہل خانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں نے ان کے بارے میں بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کا قصہ بیان کیا اور ابواسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔

Share this: