احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

105: 105- بَابُ الْجَهْرِ بِقِرَاءَةِ صَلاَةِ الْفَجْرِ:
باب: فجر کی نماز میں بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنا۔
وقالت ام سلمة: طفت وراء الناس والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي ويقرا بالطور.
‏‏‏‏ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے لوگوں کے پیچھے ہو کر کعبہ کا طواف کیا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) سورۃ الطور پڑھ رہے تھے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 773
حدثنا مسدد، قال: حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:"انطلق النبي صلى الله عليه وسلم في طائفة من اصحابه عامدين إلى سوق عكاظ، وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء، وارسلت عليهم الشهب فرجعت الشياطين إلى قومهم، فقالوا: ما لكم، فقالوا: حيل بيننا وبين خبر السماء، وارسلت علينا الشهب، قالوا: ما حال بينكم وبين خبر السماء إلا شيء حدث فاضربوا مشارق الارض ومغاربها، فانظروا ما هذا الذي حال بينكم وبين خبر السماء، فانصرف اولئك الذين توجهوا نحو تهامة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو بنخلة عامدين إلى سوق عكاظ وهو يصلي باصحابه صلاة الفجر، فلما سمعوا القرآن استمعوا له، فقالوا: هذا والله الذي حال بينكم وبين خبر السماء، فهنالك حين رجعوا إلى قومهم وقالوا: يا قومنا إنا سمعنا قرآنا عجبا يهدي إلى الرشد فآمنا به ولن نشرك بربنا احدا، فانزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم قل اوحي إلي سورة الجن آية 1 وإنما اوحي إليه قول الجن".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے ابوبشر سے بیان کیا، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے۔ ان دنوں شیاطین کو آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر انگارے (شہاب ثاقب) پھینکے جانے لگے تھے۔ تو وہ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بات کیا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے اور (جب ہم آسمان کی طرف جاتے ہیں تو) ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں۔ شیاطین نے کہا کہ آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کی کوئی نئی وجہ ہوئی ہے۔ اس لیے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا سبب ہوا ہے۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ جب قرآن مجید انہوں نے سنا تو غور سے اس کی طرف کان لگا دئیے۔ پھر کہا، اللہ کی قسم! یہی ہے جو آسمان کی خبریں سننے سے روکنے کا باعث بنا ہے۔ پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا قوم کے لوگو! ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی «قل أوحي إلى‏» (آپ کہیئے کہ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہے) اور آپ پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی۔

Share this: