احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

46: 46- بَابُ الْمَسَاجِدِ فِي الْبُيُوتِ:
باب: اس بیان میں (کہ بوقت ضرورت) گھروں میں جائے نماز (مقرر کر لینا جائز ہے)۔
وصلى البراء بن عازب في مسجده في داره جماعة.
‏‏‏‏ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھی۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 425
حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني محمود بن الربيع الانصاري، ان عتبان بن مالك وهو من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ممن شهد بدرا من الانصار،"انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، قد انكرت بصري وانا اصلي لقومي، فإذا كانت الامطار سال الوادي الذي بيني وبينهم لم استطع ان آتي مسجدهم فاصلي بهم، ووددت يا رسول الله انك تاتيني فتصلي في بيتي فاتخذه مصلى، قال: فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: سافعل إن شاء الله، قال عتبان: فغدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر حين ارتفع النهار، فاستاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاذنت له فلم يجلس حتى دخل البيت، ثم قال: اين تحب ان اصلي من بيتك ؟ قال: فاشرت له إلى ناحية من البيت، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر، فقمنا فصفنا فصلى ركعتين ثم سلم، قال: وحبسناه على خزيرة صنعناها له، قال: فثاب في البيت رجال من اهل الدار ذوو عدد فاجتمعوا، فقال قائل منهم: اين مالك بن الدخيشن او ابن الدخشن ؟ فقال بعضهم: ذلك منافق لا يحب الله ورسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، تقل ذلك، الا تراه قد قال لا إله إلا الله يريد بذلك وجه الله، قال الله ورسوله اعلم، قال: فإنا نرى وجهه ونصيحته إلى المنافقين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله"، قال ابن شهاب: ثم سالت الحصين بن محمد الانصاري وهو احد بني سالم وهو من سراتهم عن حديث محمود بن الربيع الانصاري فصدقه بذلك.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے کہ عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انہیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جا سکتا یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور (کسی جگہ) نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان سے فرمایا، انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔ عتبان نے کہا کہ (دوسرے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب دن چڑھا تو دونوں تشریف لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی پس آپ نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ عتبان نے کہا کہ ہم نے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے روکا اور آپ کی خدمت میں حلیم پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ عتبان نے کہا کہ محلہ والوں کا ایک مجمع گھر میں لگ گیا اور مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ مالک بن دخشن یا (یہ کہا) ابن دخشن دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر کسی دوسرے نے کہہ دیا کہ وہ تو منافق ہے جسے اللہ اور رسول سے کوئی محبت نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ایسا مت کہو، کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے «لا إله إلا الله» کہا ہے اور اس سے مقصود خالص اللہ کی رضا مندی حاصل کرنا ہے۔ تب منافقت کا الزام لگانے والا بولا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ہم تو بظاہر اس کی توجہات اور دوستی منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے «لا إله إلا الله» کہنے والے پر اگر اس کا مقصد خالص اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر میں نے محمود سے سن کر حصین بن محمد انصاری سے جو بنوسالم کے شریف لوگوں میں سے ہیں (اس حدیث) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ محمود سچا ہے۔

Share this: