احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

92: 92- بَابُ السَّيْرِ إِذَا دَفَعَ مِنْ عَرَفَةَ:
باب: عرفات سے لوٹتے وقت کس چال سے چلے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1666
حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، انه قال: سئل اسامة وانا جالس،"كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في حجة الوداع حين دفع ؟ قال: كان يسير العنق، فإذا وجد فجوة نص", قال هشام: والنص فوق العنق، قال ابو عبد الله: فجوة متسع، والجميع فجوات وفجاء، وكذلك ركوة وركاء مناص ليس حين فرار.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا (میں بھی وہیں موجود تھا) کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واپس ہونے کی چال کیا تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاؤں اٹھا کر چلتے تھے ذرا تیز، لیکن جب جگہ پاتے (ہجوم نہ ہوتا) تو تیز چلتے تھے، ہشام نے کہا کہ «عنق‏» تیز چلنا اور «نص» «عنق‏» سے زیادہ تیز چلنے کو کہتے ہیں۔ «فجوة» کے معنی کشادہ جگہ، اس کی جمع «فجوات» اور «فجاء» ہے جیسے زکوٰۃ مفرد «زكاء‏» اس کی جمع اور سورۃ ص میں «مناص» کا جو لفظ آیا ہے اس کے معنی بھاگنا ہے۔

Share this: