احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

12: 12- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ}:
باب: سورۃ المائدہ کی اس آیت کی تفسیر کہ ”حلال کیا گیا ہے تمہارے لیے دریا کا شکار کھانا“۔
وقال عمر صيده ما اصطيد، وطعامه ما رمى به، وقال ابو بكر الطافي حلال. وقال ابن عباس طعامه ميتته إلا ما قذرت منها، والجري لا تاكله اليهود ونحن ناكله. وقال شريح صاحب النبي صلى الله عليه وسلم كل شيء في البحر مذبوح. وقال عطاء اما الطير فارى ان يذبحه. وقال ابن جريج قلت لعطاء صيد الانهار وقلات السيل اصيد بحر هو قال نعم، ثم تلا: {هذا عذب فرات سائغ شرابه وهذا ملح اجاج ومن كل تاكلون لحما طريا}. وركب الحسن- عليه السلام- على سرج من جلود كلاب الماء. وقال الشعبي لو ان اهلي اكلوا الضفادع لاطعمتهم. ولم ير الحسن بالسلحفاة باسا. وقال ابن عباس كل من صيد البحر ما صاده نصراني او يهودي او مجوسي. وقال ابو الدرداء في المري ذبح الخمر النينان والشمس.
‏‏‏‏ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دریا کا شکار وہ ہے جو «تدبير» یعنی جال وغیرہ سے شکار کیا جائے اور اس کا کھانا وہ ہے جسے پانی نے باہر پھینک دیا ہو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو دریا کا جانور مر کر پانی کے اوپر تیر کر آئے وہ حلال ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اس کا کھانا سے مراد دریا کا مردار ہے، سوا اس کے جو بگڑ گیا ہو۔ بام، جھینگے، مچھلی کو یہودی نہیں کھاتے، لیکن ہم (فراغت سے) کھاتے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی شریح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر دریائی جانور مذبوحہ ہے۔ اسے ذبح کی ضرورت نہیں۔ عطاء نے کہا کہ دریائی پرندے کے متعلق میری رائے ہے کہ اسے ذبح کرے۔ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا، کیا نہروں کا شکار اور سیلاب کے گڑھوں کا شکار بھی دریائی شکار ہے (کہ اس کا کھانا بلا ذبح جائز ہو) کہا کہ ہاں۔ پھر انہوں نے (دلیل کے طور پر) سورۃ النحل کی اس آیت کی تلاوت کی «هذا عذب فرات سائغ شرابه وهذا ملح أجاج ومن كل تأكلون لحما طريا‏» کہ یہ دریا بہت زیادہ میٹھا ہے اور یہ دوسرا دریا بہت زیادہ کھارا ہے اور تم ان میں سے ہر ایک سے تازہ گوشت (مچھلی) کھاتے ہو . اور حسن رضی اللہ عنہ دریائی کتے کے چمڑے سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوئے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر والے مینڈک کھائیں تو میں بھی ان کو کھلاؤں گا اور حسن بصری کچھوا کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دریائی شکار کھاؤ خواہ نصرانی نے کیا ہو یا کسی یہودی نے کیا ہو یا مجوسی نے کیا ہو اور ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شراب میں مچھلی ڈال دیں اور سورج کی دھوپ اس پر پڑے تو پھر وہ شراب نہیں رہتی۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 5493
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن جريج، قال: اخبرني عمرو، انه سمع جابرا رضي الله عنه، يقول:"غزونا جيش الخبط، وامر ابو عبيدة فجعنا جوعا شديدا فالقى البحر حوتا ميتا لم ير مثله، يقال له: العنبر، فاكلنا منه نصف شهر، فاخذ ابو عبيدة عظما من عظامه فمر الراكب تحته".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خبط میں شریک تھے، ہمارے امیر الجیش ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ہم سب بھوک سے بیتاب تھے کہ سمندر نے ایک مردہ مچھلی باہر پھینکی۔ ایسی مچھلی دیکھی نہیں گئی تھی۔ اسے عنبر کہتے تھے، ہم نے وہ مچھلی پندرہ دن تک کھائی۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک ہڈی لے کر (کھڑی کر دی) تو وہ اتنی اونچی تھی کہ ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔

Share this: