احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

39: 39- بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ السَّمَرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ:
باب: عشاء کی نماز کے بعد «سمر» یعنی دنیا کی باتیں کرنا مکروہ ہے۔
السمر فی الفقه والخير بعد العشاء السامر والجمع السمار والسامر ﻫﻬﻨﺎ في موضع الجمع و اصل السمر ضؤلون القمر و کانوا يتحدثون فيه.
‏‏‏‏ «سامر» کا لفظ جو قرآن میں ہے «سمر» ہی سے نکلا ہے۔ اس کی جمع «سمار» ہے اور لفظ «سامر» اس آیت میں جمع کے معنی میں ہے۔ «سمر» اصل میں چاند کی روشنی کو کہتے ہیں، اہل عرب چاندنی راتوں میں گپ شپ کیا کرتے تھے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 599
حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا عوف، قال: حدثنا ابو المنهال، قال: انطلقت مع ابي إلى ابي برزة الاسلمي، فقال له: ابي حدثنا،"كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة ؟ قال: كان يصلي الهجير وهي التي تدعونها الاولى حين تدحض الشمس ويصلي العصر، ثم يرجع احدنا إلى اهله في اقصى المدينة والشمس حية، ونسيت ما قال في المغرب، قال: وكان يستحب ان يؤخر العشاء، قال: وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها، وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف احدنا جليسه ويقرا من الستين إلى المائة".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا ہم سے عوف اعرابی نے، کہا کہ ہم سے ابوالمنہال سیار بن سلامہ نے، انہوں نے کہا کہ میں اپنے باپ سلامہ کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان سے میرے والد صاحب نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کس طرح (یعنی کن کن اوقات میں) پڑھتے تھے۔ ہم سے اس کے بارے میں بیان فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم «هجير» (ظہر) جسے تم صلوٰۃ اولیٰ کہتے ہو سورج ڈھلتے ہی پڑھتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عصر پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص اپنے گھر واپس ہوتا اور وہ بھی مدینہ کے سب سے آخری کنارہ پر تو سورج ابھی صاف اور روشن ہوتا۔ مغرب کے بارے میں آپ نے جو کچھ بتایا مجھے یاد نہیں رہا۔ اور فرمایا کہ عشاء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاخیر پسند فرماتے تھے۔ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ صبح کی نماز سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوتے تو ہم اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان لیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر میں ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے تھے۔

Share this: