احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

15: 15- بَابُ الاِشْتِرَاكِ فِي الْهَدْيِ وَالْبُدْنِ، وَإِذَا أَشْرَكَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي هَدْيِهِ بَعْدَ مَا أَهْدَى:
باب: قربانی کے جانوروں اور اونٹوں میں شرکت اور اگر کوئی مکہ کو قربانی بھیج چکے پھر اس میں کسی کو شریک کر لے تو جائز ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2505
حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، اخبرنا عبد الملك بن جريج، عن عطاء، عن جابر، وعن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنهم، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه صبح رابعة من ذي الحجة مهلين بالحج لا يخلطهم شيء، فلما قدمنا امرنا فجعلناها عمرة، وان نحل إلى نسائنا ففشت في ذلك القالة، قال عطاء: فقال جابر: فيروح احدنا إلى منى، وذكره يقطر منيا، فقال جابر بكفه: فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقام خطيبا، فقال: بلغني ان اقواما يقولون كذا وكذا، والله لانا ابر واتقى لله منهم، ولو اني استقبلت من امري ما استدبرت ما اهديت، ولولا ان معي الهدي لاحللت، فقام سراقة بن مالك بن جعشم، فقال: يا رسول الله، هي لنا او للابد، فقال: لا، بل للابد، قال: وجاء علي بن ابي طالب، فقال احدهما: يقول لبيك بما اهل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: وقال الآخر: لبيك بحجة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فامر النبي صلى الله عليه وسلم ان يقيم على إحرامه، واشركه في الهدي.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی، انہیں عطاء نے اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے اور (ابن جریج اسی حدیث کی دوسری روایت) طاؤس سے کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے جس کے ساتھ کوئی اور چیز (عمرہ) نہ ملاتے ہوئے (مکہ میں) داخل ہوئے۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہم نے اپنے حج کو عمرہ کر ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ (عمرہ کے افعال ادا کرنے کے بعد حج کے احرام تک) ہماری بیویاں ہمارے لیے حلال رہیں گی۔ اس پر لوگوں میں چرچا ہونے لگا۔ عطاء نے بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کچھ لوگ کہنے لگے کیا ہم میں سے کوئی منیٰ اس طرح جائے کہ منی اس کے ذکر سے ٹپک رہی ہو۔ جابر نے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ نیک اور اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ اگر مجھے وہ بات پہلے ہی معلوم ہوتی جو اب معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام کھول دیتا۔ اس پر سراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! کیا یہ حکم (حج کے ایام میں عمرہ) خاص ہمارے ہی لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (یمن سے) آئے۔ اب عطاء اور طاؤس میں سے ایک تو یوں کہتا ہے علی رضی اللہ عنہ نے احرام کے وقت یوں کہا تھا۔ «لبيك بما أهل به رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏» اور دوسرا یوں کہتا ہے کہ انہوں نے «لبيك بحجة رسول الله صلى الله عليه وسلم» کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں (جیسا بھی انہوں نے باندھا ہے) اور انہیں اپنی قربانی میں شریک کر لیا۔

Share this: