احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

25: 25- سورة الْفُرْقَانِ:
باب: سورۃ الفرقان کی تفسیر۔
وقال ابن عباس: هباء منثورا: ما تسفي به الريح، مد الظل: ما بين طلوع الفجر إلى طلوع الشمس، ساكنا: دائما، عليه دليلا: طلوع الشمس، خلفة: من فاته من الليل عمل ادركه بالنهار، او فاته بالنهار ادركه بالليل، وقال الحسن: هب لنا من ازواجنا: وذرياتنا قرة اعين في طاعة الله وما شيء اقر لعين المؤمن من ان يرى حبيبه في طاعة الله، وقال ابن عباس: ثبورا: ويلا، وقال غيره: السعير مذكر والتسعر والاضطرام التوقد الشديد، تملى عليه: تقرا عليه من امليت وامللت الرس المعدن جمعه رساس، ما يعبا، يقال: ما عبات به شيئا لا يعتد به، غراما: هلاكا، وقال مجاهد: وعتوا: طغوا، وقال ابن عيينة: عاتية: عتت عن الخزان.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «هباء منثورا‏» کے معنی جو چیز ہوا اڑا کر لائے (گرد و غبار وغیرہ)۔ «مد الظل‏» سے وہ وقت مراد ہے جو طلوع صبح سے سورج نکلنے تک ہوتا ہے۔ «ساكنا‏» کا معنی ہمیشہ۔ «عليه دليلا‏» میں «دليل» سے سورج کا نکلنا مراد ہے۔ «خلفة‏» سے یہ مطلب ہے کہ رات کا جو کام نہ ہو سکے وہ دن کو پورا کر سکتا ہے، دن کا جو کام نہ ہو سکے وہ رات کو پورا کر سکتا ہے۔ اور امام حسن بصری نے کہا «قرة اعین» کا مطلب یہ ہے کہ ہماری بیویوں کو اور اولاد کو خدا پرست، اپنا تابعدار بن دے۔ مومن کی آنکھ کی ٹھنڈک اس سے زیادہ کسی بات میں نہیں ہوتی کہ اس کا محبوب اللہ کی عبادت میں مصروف ہو۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ثبورا‏» کے معنی ہلاکت خرابی۔ اوروں نے کہا «سعير» کا لفظ مذکر ہے، یہ «تسعر» سے نکلا ہے، «تسعر» اور «اضطرام» آگ کے خوب سلگنے کو کہتے ہیں۔ «تملى عليه‏» اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں یہ «أمليت» اور «أمللت» سے نکلا ہے۔ «الرس»، «كان» کو کہتے ہیں اس کی جمع «رساس» آتی ہے۔ «كان» بمعنی «معدن ما يعبأ‏» عرب لوگ کہتے ہیں «ما عبأت به شيئا» یعنی میں نے اس کی کچھ پروا نہیں کی۔ «غراما‏» کے معنی ہلاکت اور مجاہد نے کہا «عتوا‏» کا معنی شرارت کے ہیں اور سفیان بن عیینہ نے کہا «عاتية‏» کا معنی یہ ہے کہ اس نے خزانہ دار فرشتوں کا کہنا نہ سنا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4760
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا يونس بن محمد البغدادي، حدثنا شيبان، عن قتادة، حدثنا انس بن مالك رضي الله عنه، ان رجلا، قال: يا نبي الله، يحشر الكافر على وجهه يوم القيامة، قال:"اليس الذي امشاه على الرجلين في الدنيا قادرا على ان يمشيه على وجهه يوم القيامة"، قال قتادة: بلى، وعزة ربنا.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد بغدادی نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے پوچھا، اے اللہ کے نبی! کافر کو قیامت کے دن اس کے چہرے کے بل کس طرح چلایا جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جس نے اسے اس دنیا میں دو پاؤں پر چلایا ہے اس پر قادر ہے کہ قیامت کے دن اس کو اس کے چہرے کے بل چلا دے۔ قتادہ نے کہا یقیناً ہمارے رب کی عزت کی قسم! یونہی ہو گا۔

Share this: