احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

95: 95- بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ:
باب: امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 755
حدثنا موسى، قال: حدثنا ابو عوانة، قال: حدثنا عبد الملك بن عمير، عن جابر بن سمرة، قال:"شكا اهل الكوفة سعدا إلى عمر رضي الله عنه، فعزله واستعمل عليهم عمارا فشكوا حتى ذكروا انه لا يحسن يصلي، فارسل إليه، فقال: يا ابا إسحاق، إن هؤلاء يزعمون انك لا تحسن تصلي، قال ابو إسحاق: اما انا والله فإني كنت اصلي بهم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ما اخرم عنها اصلي صلاة العشاء فاركد في الاوليين واخف في الاخريين، قال: ذاك الظن بك يا ابا إسحاق، فارسل معه رجلا او رجالا إلى الكوفة فسال عنه اهل الكوفة ولم يدع مسجدا إلا سال عنه ويثنون معروفا، حتى دخل مسجدا لبني عبس فقام رجل منهم يقال له اسامة بن قتادة يكنى ابا سعدة قال: اما إذ نشدتنا فإن سعدا كان لا يسير بالسرية ولا يقسم بالسوية ولا يعدل في القضية، قال سعد: اما والله لادعون بثلاث، اللهم إن كان عبدك هذا كاذبا قام رياء وسمعة فاطل عمره واطل فقره وعرضه بالفتن، وكان بعد إذا سئل يقول شيخ كبير مفتون اصابتني دعوة سعد، قال عبد الملك: فانا رايته بعد قد سقط حاجباه على عينيه من الكبر، وإنه ليتعرض للجواري في الطرق يغمزهن".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالملک بن عمیر نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، کہا کہ اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مغزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں (قرآت) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔

Share this: