احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

19: 19- بَابُ إِذَا لَمْ يَكُنِ الإِسْلاَمُ عَلَى الْحَقِيقَةِ وَكَانَ عَلَى الاِسْتِسْلاَمِ أَوِ الْخَوْفِ مِنَ الْقَتْلِ:
باب: جب حقیقی اسلام پر کوئی نہ ہو بلکہ محض ظاہر طور پر مسلمان بن گیا ہو یا قتل کے خوف سے تو (لغوی حیثیت سے اس پر) مسلمان کا اطلاق درست ہے۔
لقوله تعالى: {قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا اسلمنا}. فإذا كان على الحقيقة فهو على قوله جل ذكره: {إن الدين عند الله الإسلام}، {ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه}.
‏‏‏‏ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ جب دیہاتیوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے آپ کہہ دیجیئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ظاہر طور پر مسلمان ہو گئے۔ لیکن اگر ایمان حقیقتاً حاصل ہو تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد (بیشک دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے) کا مصداق ہے۔ آیات شریفہ میں لفظ «ايمان» اور «اسلام» ایک ہی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 27
حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عامر بن سعد بن ابي وقاص، عن سعد رضي الله عنه،"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطى رهطا وسعد جالس، فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا هو اعجبهم إلي، فقلت: يا رسول الله، ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا ؟ فقال: او مسلما، فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم منه فعدت لمقالتي، فقلت: ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا ؟ فقال: او مسلما، ثم غلبني ما اعلم منه، فعدت لمقالتي وعاد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا سعد، إني لاعطي الرجل وغيره احب إلي منه خشية ان يكبه الله في النار"، ورواه يونس، وصالح، ومعمر، وابن اخي الزهري، عن الزهري.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے سن کر یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو کچھ عطیہ دیا اور سعد وہاں موجود تھے۔ (وہ کہتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہ دیا۔ حالانکہ وہ ان میں مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ میں تھوڑی دیر چپ رہ کر پھر پہلی بات دہرانے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوبارہ وہی جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے (پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ (وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے اور) اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے۔ اس حدیث کو یونس، صالح، معمر اور زہری کے بھتیجے عبداللہ نے زہری سے روایت کیا۔

Share this: