احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

44: 44- بَابُ تَوْرِيثِ دُورِ مَكَّةَ وَبَيْعِهَا وَشِرَائِهَا:
باب: مکہ شریف کے گھر مکان میراث ہو سکتے ہیں ان کا بیچنا اور خریدنا جائز ہے۔
خاصة لقوله تعالى: إن الذين كفروا ويصدون عن سبيل الله والمسجد الحرام الذي جعلناه للناس سواء العاكف فيه والباد ومن يرد فيه بإلحاد بظلم نذقه من عذاب اليم سورة الحج آية 25 , البادي: الطاري معكوفا محبوسا.
‏‏‏‏ مسجد الحرام میں سب لوگ برابر ہیں یعنی خاص مسجد میں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحج) میں فرمایا، جن لوگوں نے کفر کیا اور جو لوگ اللہ کی راہ اور مسجد الحرام سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ جس کو ہم نے تمام لوگوں کے لیے یکساں مقرر کیا ہے۔ خواہ وہ وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے اور جو شخص وہاں شرارت کے ساتھ حد سے تجاوز کرے، ہم اسے درد ناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لفظ «بادي» باہر سے آنے والے کے معنی میں ہے اور «معكوفا» کا لفظ رکے ہوئے کے معنے میں ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1588
حدثنا اصبغ، قال: اخبرني ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، عن علي بن حسين، عن عمرو بن عثمان، عن اسامة بن زيدرضي الله عنهما، انه قال:"يا رسول الله، اين تنزل في دارك بمكة ؟ , فقال: وهل ترك عقيل من رباع او دور، وكان عقيل ورث ابا طالب هو وطالب، ولم يرثه جعفر ولا علي رضي الله عنهما شيئا لانهما كانا مسلمين، وكان عقيل وطالب كافرين، فكان عمر بن الخطاب رضي الله عنه، يقول: لا يرث المؤمن الكافر، قال ابن شهاب: وكانوا يتاولون قول الله تعالى: إن الذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا باموالهم وانفسهم في سبيل الله والذين آووا ونصروا اولئك بعضهم اولياء بعض سورة الانفال آية 72".
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین نے، انہیں عمرو بن عثمان نے اور انہیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ مکہ میں کیا اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقیل نے ہمارے لیے محلہ یا مکان چھوڑا ہی کب ہے۔ (سب بیچ کھوچ کر برابر کر دئیے) عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث ہوئے تھے۔ جعفر اور علی رضی اللہ عنہما کو وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا، کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہو گئے تھے اور عقیل رضی اللہ عنہ (ابتداء میں) اور طالب اسلام نہیں لائے تھے۔ اسی بنیاد پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب نے کہا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دلیل لیتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی، وہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔

Share this: