احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

30: 30- بَابُ: {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً} الآيَةَ:
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں فرمانا) ”وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو“ آخر آیت تک۔
قال ابو العالية: العوان النصف بين البكر والهرمة فاقع سورة البقرة آية 69 صاف لا ذلول سورة البقرة آية 71 لم يذلها العمل تثير الارض سورة البقرة آية 71 ليست بذلول تثير الارض ولا تعمل في الحرث مسلمة سورة البقرة آية 71 من العيوب لا شية سورة البقرة آية 71 بياض صفراء سورة البقرة آية 69 إن شئت سوداء ويقال صفراء كقوله جمالت صفر سورة المرسلات آية 33 فاداراتم سورة البقرة آية 72 اختلفتم.
‏‏‏‏ ابوالعالیہ نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) «العوان» نوجوان اور بوڑھے کے درمیان کے معنی میں ہے۔ «فاقع‏» بمعنی صاف۔ «لا ذلول‏» یعنی جسے کام نے نڈھال اور لاغر نہ کر دیا ہو۔ «تثير الأرض‏» یعنی وہ اتنی کمزور نہ ہو کہ زمین نہ جوت سکے اور نہ کھیتی باڑی کے کام کی ہو۔ «مسلمة‏» یعنی صحیح سالم اور عیوب سے پاک ہو۔ «لا شية‏» یعنی داغی (نہ ہو)۔ «صفراء‏» اگر تم چاہو تو اس کے معنی سیاہ کے بھی ہو سکتے ہیں اور زرد کے بھی جیسے «جمالة صفر‏» میں ہے۔ «فادارأتم‏» بمعنی «فاختلفتم‏» تم نے اختلاف کیا۔ (مزید معلومات کے لیے ان مقامات قرآن کا مطالعہ ضروری ہے جہاں یہ الفاظ آئے ہیں۔)
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3407
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:"ارسل ملك الموت إلى موسى عليهما السلام فلما جاءه صكه فرجع إلى ربه، فقال: ارسلتني إلى عبد لا يريد الموت، قال: ارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بما غطت يده بكل شعرة سنة، قال: اي رب ثم ماذا، قال: ثم الموت، قال: فالآن، قال: فسال الله ان يدنيه من الارض المقدسة رمية بحجر، قال: ابو هريرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لو كنت ثم لاريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الاحمر"، قال: واخبرنا معمر، عن همام، حدثنا ابو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت کو بھیجا۔ جب ملک الموت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں چانٹا مارا (کیونکہ وہ انسان کی صورت میں آیا تھا) ملک الموت ‘ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اور عرض کیا کہ تو نے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دوبارہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں، ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آ جائیں ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی (ملک الموت دوبارہ آئے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سنایا) موسیٰ علیہ السلام بولے: اے رب! پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر موت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر ابھی کیوں نہ آ جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ بیت المقدس سے مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ (جہاں ان کی قبر ہو وہاں سے) اگر کوئی پتھر پھینکے تو وہ بیت المقدس تک پہنچ سکے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو بیت المقدس میں ‘ میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو راستے کے کنارے پر ہے ‘ ریت کے سرخ ٹیلے سے نیچے۔ عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا۔

Share this: