احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

20: باب مَا جَاءَ فِي أَخْذِ الأَجْرِ عَلَى التَّعْوِيذِ
باب: تعویذ (جھاڑ پھونک) پر اجرت لینے کا بیان۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2063
حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن جعفر بن إياس، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فنزلنا بقوم، فسالناهم القرى فلم يقرونا، فلدغ سيدهم فاتونا، فقالوا: هل فيكم من يرقي من العقرب، قلت: نعم انا، ولكن لا ارقيه حتى تعطونا غنما، قال: فإنا نعطيكم ثلاثين شاة، فقبلنا، فقرات عليه الحمد لله سبع مرات فبرا، وقبضنا الغنم، قال: فعرض في انفسنا منها شيء، فقلنا: لا تعجلوا حتى تاتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما قدمنا عليه ذكرت له الذي صنعت، قال: " وما علمت انها رقية، اقبضوا الغنم واضربوا لي معكم بسهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو نضرة اسمه المنذر بن مالك بن قطعة، ورخص الشافعي للمعلم ان ياخذ على تعليم القرآن اجرا، ويرى له ان يشترط على ذلك، واحتج بهذا الحديث، وجعفر بن إياس هو جعفر بن ابي وحشية، وهو ابو بشر، وروى شعبة، وابو عوانة، وغير واحد، عن ابي بشر هذا الحديث، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، ہم نے ایک قوم کے پاس پڑاؤ ڈالا اور ان سے ضیافت کی درخواست کی، لیکن ان لوگوں نے ہماری ضیافت نہیں کی، اسی دوران ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، چنانچہ انہوں نے ہمارے پاس آ کر کہا: کیا آپ میں سے کوئی بچھو کے ڈنک سے جھاڑ پھونک کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں کرتا ہوں، لیکن اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم مجھے کچھ بکریاں نہ دے دو، انہوں نے کہا: ہم تم کو تیس بکریاں دیں گے، چنانچہ ہم نے قبول کر لیا اور میں نے سات بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ صحت یاب ہو گیا اور ہم نے بکریاں لے لیں ۱؎، ہمارے دل میں بکریوں کے متعلق کچھ خیال آیا ۲؎، لہٰذا ہم نے کہا: جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو میں نے جو کچھ کیا تھا آپ سے بیان کر دیا، آپ نے فرمایا: تم نے کیسے جانا کہ سورۃ فاتحہ رقیہ (جھاڑ پھونک کی دعا) ہے؟ تم لوگ بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- شعبہ، ابو عوانہ ہشام اور کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي المتوكل عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے،
۳- تعلیم قرآن پر معلم کے لیے اجرت لینے کو امام شافعی نے جائز کہا ہے اور وہ معلم کے لیے اجرت کی شرط لگانے کو درست سمجھتے ہیں، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإجارة 16 (2276)، وفضائل القرآن 9 (5007)، والطب 33 (5736)، و39 (5749)، صحیح مسلم/السلام 23 (2201)، سنن ابی داود/ الطب 19 (3900)، سنن ابن ماجہ/التجارات 7 (2156) (تحفة الأشراف: 4307)، و مسند احمد (3/44) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی یہ خیال آیا کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔
۲؎: جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اذان، قضاء، امامت، اور تعلیم قرآن کی اجرت لی جا سکتی ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں کتاب اللہ کی تعلیم کی بابت اجرت لینے سے متعلق ابن عباس کی روایت اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی یہ حدیث جو صحیح بخاری میں بھی ہے، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی الله عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے ایک شخص کے نکاح میں قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا یہ ساری کی ساری روایات اس کے جواز پر دلیل ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2156)

Share this: