احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: باب مَا جَاءَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ
باب: جب تک لوگ لا إلہ الا اللہ کہنے نہ لگ جائیں اس وقت تک مجھے ان سے جہاد کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2606
حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوها منعوا مني دماءهم واموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله " , وفي الباب عن جابر، وابي سعيد، وابن عمر , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ (جہاد) کروں یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کر لیں، پھر جب وہ اس کا اقرار کر لیں تو اب انہوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، مگر کسی حق کے بدلے ۱؎، اور ان کا (مکمل) حساب تو اللہ تعالیٰ پر ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جابر، ابوسعید اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد 102 (2946)، صحیح مسلم/الإیمان 8 (2610)، سنن ابی داود/ الجھاد 104 (2640)، سنن النسائی/الجھاد 1 (3092)، سنن ابن ماجہ/الفتن 1 (3927) (تحفة الأشراف: 12506)، و مسند احمد (2/314، 377، 423، 439، 475، 482، 502، 528) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی ان کی جان اور ان کا مال صرف اسی وقت لیا جائے گا جب وہ قول و عمل سے اپنے آپ کو اس کا مستحق اور سزاوار بنا دیں، مثلاً کسی نے کسی کو قتل کر دیا تو ایسی صورت میں مقتول کے ورثاء اسے قتل کریں گے یا اس سے دیت لیں گے۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے، اس کا مقصد دنیا سے تاریکی، گمراہی اور ظلم و بربریت کا خاتمہ ہے، ساتھ ہی لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانا اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرنا ہے، دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ جو اسلام کو اپنے گلے سے لگا لے اس کی جان مال محفوظ ہے، البتہ جرائم کے ارتکاب پراس پر اسلامی احکام لاگو ہوں گے، وہ اپنے مال سے زکاۃ ادا کرے گا، کسی مسلمان کو ناجائز قتل کر دینے کی صورت میں اگر ورثاء اسے معاف نہ کریں اور نہ ہی دیت لینے پر راضی ہوں تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے ظاہری حالات کے مطابق اسلامی احکام کا اجراء ہو گا، اس کا باطنی معاملہ اللہ کے سپرد ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح متواتر، ابن ماجة (71)

Share this: