احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

14: (باب)
(مرسل کی حجیت کے قائلین)
وقد احتج بعض اهل العلم بالمرسل ايضا.
‏‏‏‏ بعض اہل علم نے مرسل کو حجت مانا ہے۔

حدثنا ابو عبيدة ابن ابي السفر الكوفي، حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن سليمان الاعمش قال: قلت لإبراهيم النخعي: اسند لي عن عبدالله بن مسعود؛ فقال إبراهيم: إذا حدثتك"عن رجل عن عبدالله"؛ فهو الذي سميت، وإذا قلت،"قال عبدالله": فهو عن غير واحد عن عبدالله.
‏‏‏‏ سلیمان بن مہران اعمش کہتے ہیں: میں نے ابراہیم نخعی سے کہا کہ آپ عبداللہ بن مسعود کی سند بیان کیجئے تو انہوں نے کہا: جب میں تم سے کہوں: «حدثنا رجل عن عبداللہ بن مسعود» (ہم سے ایک آدمی نے بیان کہ اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی) تو یہ ایسی سند ہے جس میں میں نے راوی کا نام لیا ہے، اور جب میں کہوں: «قال عبداللہ» تو وہ کئی رواۃ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی۔

قال ابو عيسى: وقد اختلف الائمة من اهل العلم في تضعيف الرجال كما اختلفوا في سوى ذلك من العلم.
‏‏‏‏ ترمذی کہتے ہیں: اہل علم کے نزدیک رواۃ کی تضعیف میں اختلاف ہے جیسے دوسرے علوم و فنون میں علماء کا اختلاف ہے،

ذكر عن شعبة انه ضعف ابا الزبير المكي، وعبد الملك بن ابي سليمان، وحكيم بن جبير، وترك الرواية عنهم، ثم حدث شعبة عمن هو دون هؤلائ في الحفظ والعدالة، حدث عن جابر الجعفي، وإبراهيم بن مسلم الهجري، ومحمد بن عبيدالله العرزمي، وغير واحد ممن يضعفون في الحديث.
‏‏‏‏ شعبہ سے آیا ہے کہ انہوں نے ابوالزبیر مکی، عبدالملک بن ابی سلیمان، اور حکیم بن جبیر کی تضعیف کی، اور ان سے روایت ترک کر دی، پھر شعبہ نے حفظ و عدالت میں ان سے کم درجے کے رواۃ سے روایت کی، یعنی جابر جعفی، ابراہیم بن مسلم ہجری، محمد بن عبیداللہ العرزمی اور کئی راوی جو حدیث میں ضعیف قرار دیے گئے ہیں سے روایت کی۔

حدثنا محمد بن عمرو بن نبهان بن صفوان البصري، حدثنا امية بن خالد، قال: قلت لشعبة: تدع عبد الملك بن ابي سليمان، وتحدث عن محمد بن عبيد الله العرزمي؟ قال: نعم.
‏‏‏‏ امیہ بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ سے کہا: آپ عبدالملک بن ابی سلیمان کو چھوڑ کر محمد بن عبیداللہ عرزمی سے روایت کرتے ہیں؟ کہا: ہاں۔

قال ابو عيسى: وقد كان شعبة حدث عن عبد الملك بن ابي سليمان، ثم تركه، ويقال: إنما تركه لما تفرد بالحديث الذي روى عن عطائ بن ابي رباح عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"الرجل احق بشفعته ينتظر به وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا".
‏‏‏‏ ترمذی کہتے ہیں: شعبہ نے پہلے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی پھر انہیں چھوڑ دیا، اور کہا جاتا ہے کہ ان کے چھوڑنے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے بسند «عطاء بن ابی رباح عن جابر بن عبداللہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم » یہ حدیث روایت کی: «الرَّجُلُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا»۔

وقد ثبت غير واحد من الائمة، وحدثوا عن ابي الزبير وعبد الملك بن ابي سليمان، وحكيم بن جبير.
‏‏‏‏ اور کئی ائمہ ابوالزبیر مکی، عبدالملک بن ابی سلیمان اور حکیم بن جبیر کی توثیق کی، اور ان سے روایت کی۔

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، حدثنا حجاج، وابن ابي ليلى، عن عطائ بن ابي رباح قال: كنا إذا خرجنا من عند جابر بن عبدالله تذاكرنا حديثه، وكان ابوالزبير احفظنا للحديث.
‏‏‏‏ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں: ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس سے نکل کر آپ کی احادیث کا مذاکرہ کیا، تو ابوالزبیر ان احادیث کے سب سے زیادہ حافظ تھے۔

حدثنا محمد بن يحيى بن ابي عمر المكي، حدثنا سفيان بن عيينة، قال: قال ابوالزبير: كان عطائ يقدمني إلى جابر بن عبد الله احفظ لهم الحديث.
‏‏‏‏ ابوالزبیر کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح مجھے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے آگے کرتے تھے، تاکہ میں ان کے لیے حدیث یاد کر لوں۔

حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان قال: سمعت ايوب السختياني يقول: حدثني ابوالزبير، وابو الزبير، وابوالزبير، قال سفيان بيده يقبضها. قال ابو عيسى: إنما يعني بذلك الإتقان والحفظ.
‏‏‏‏ ایوب سختیانی کہتے ہیں: ہم سے ابوالزبیر نے حدیث بیان کی، اور ابوالزبیر اور ابوالزبیر، اور ابوالزبیر سفیان ثوری اپنا ہاتھ پکڑ کر یہ کہہ رہے تھے۔ ترمذی کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ اس کلام سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حفظ حدیث اور روایت حدیث میں ابوالزبیر قوی اور پختہ ہیں۔

ويروى عن عبدالله بن المبارك قال: كان سفيان الثوري يقول: كان عبدالملك بن ابي سليمان ميزانا في العلم.
‏‏‏‏ عبداللہ بن المبارک سے روایت ہے کہ سفیان ثوری کہتے تھے: عبدالملک بن ابی سلیمان علم کی میزان ہیں۔

حدثنا ابو بكر، عن علي بن عبدالله قال: سالت يحيى بن سعيد، عن حكيم بن جبير فقال: تركه شعبة من اجل الحديث الذي رواه في الصدقة يعني حديث عبدالله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"من سال الناس وله ما يغنيه كان يوم القيامة خموشا في وجهه، قيل: يا رسول الله! وما يغنيه؟ قال:"خمسون درهما او قيمتها من الذهب".
‏‏‏‏ علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے حکیم بن جبیر کے بارے میں سوال کیا تو کہا: صدقہ والی حدیث کی روایت کی وجہ سے شعبہ نے ان سے روایت ترک کر دی، یعنی ابن مسعود کی حدیث کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے سوال کیا اور اس کے پاس موجود مال اس کو دوسروں سے بے نیاز کر دینے والا ہے، تو وہ قیامت کے دن ایسے ہو گا کہ اس کے چہرہ پر خراش ہو گی، کہا گیا: اللہ کے رسول! اسے کون سی چیز دوسروں سے بے نیاز کرے گی؟ فرمایا: پچاس درہم (چاندی کے) یا اس قیمت کا سونا۔

قال علي: قال يحيى: وقد حدث عن حكيم بن جبير سفيان الثوري، وزائدة.
‏‏‏‏ علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں: سفیان ثوری اور زائدہ نے حکیم بن جبیر سے روایت کی ہے۔

قال علي: ولم ير يحيى بحديثه باسا.
‏‏‏‏ اور علی بن المدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان کے نزدیک حکیم بن جبیر کی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا يحيى بن آدم، عن سفيان الثوري، عن حكيم بن جبير بحديث الصدقة.
‏‏‏‏ ترمذی کہتے ہیں: ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن آدم نے، یحییٰ نے سفیان ثوری سے روایت کی، وہ کہتے ہیں کہ حکیم بن جبیر نے صدقہ والی حدیث روایت کی۔

قال يحيى بن آدم: قال عبدالله بن عثمان صاحب شعبة لسفيان الثوري: لو غير حكيم حدث بهذا؟ فقال له سفيان: وما لحكيم لا يحدث عنه شعبة؟ قال: نعم، فقال سفيان الثوري: سمعت زبيدا يحدث بهذا عن محمد بن عبدالرحمن بن يزيد.
‏‏‏‏ یحیی بن آدم کہتے ہیں: شعبہ کے شاگرد عبداللہ بن عثمان نے سفیان ثوری سے کہا: اگر صدقہ والی حدیث حکیم بن جبیر کے علاوہ کسی اور نے روایت کی ہوتی تو کیا حکم ہوتا؟۔ سفیان ثوری نے جواب دیا: حکیم کو کیا ہو گیا کہ شعبہ نے ان سے روایت نہیں کی؟ عبداللہ بن عثمان نے کہا: ہاں! (ایسے ہی ہے، شعبہ نے حکیم سے روایت نہیں کی) تو سفیان ثوری نے کہا: میں نے زبید کو یہ حدیث محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت کرتے ہوئے سنا ہے۔

Share this: