احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

26: باب مَا جَاءَ فِي الْبَيِّعَيْنِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا
باب: بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 1245
حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا الكوفي بن فضيل، عن يحيى بن سعيد، عن نافع، عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا " او " يختارا "، قال: فكان ابن عمر إذا ابتاع بيعا وهو قاعد، قام ليجب له البيع. قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابي برزة، وحكيم بن حزام، وعبد الله بن عباس، وعبد الله بن عمرو، وسمرة، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقالوا: الفرقة بالابدان لا بالكلام، وقد قال بعض اهل العلم: معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم: " ما لم يتفرقا يعني الفرقة بالكلام "، والقول الاول اصح لان ابن عمر هو روى عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهو اعلم بمعنى ما روى. وروي عنه انه كان إذا اراد ان يوجب البيع مشى ليجب له.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کر لیں ۲؎۔ نافع کہتے ہیں: جب ابن عمر رضی الله عنہما کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہو جائے (اور اختیار باقی نہ رہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبرزہ، حکیم بن حزام، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو، سمرہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تفرق سے مراد جسمانی جدائی ہے نہ کہ قولی جدائی، یعنی مجلس سے جدائی مراد ہے گفتگو کا موضوع بدلنا مراد نہیں،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «مالم يتفرقا» سے مراد قولی جدائی ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے ہی اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ اور وہ اپنی روایت کردہ حدیث کا معنی زیادہ جانتے ہیں اور ان سے مروی ہے کہ جب وہ بیع واجب (پکی) کرنے کا ارادہ کرتے تو (مجلس سے اٹھ کر) چل دیتے تاکہ بیع واجب ہو جائے،
۵- ابوبرزہ رضی الله عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع 42 (2107)، صحیح مسلم/البیوع 10 (1531)، سنن النسائی/البیوع 9 (4478)، (تحفة الأشراف: 8522) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع 43 (2109)، و 44 (2111)، و45 (2112)، و46 (2113)، صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ البیوع 53 (3454)، سنن النسائی/البیوع 9 (4470-4477)، سنن ابن ماجہ/التجارات 17 (2181)، موطا امام مالک/البیوع 38 (79)، مسند احمد (2/4، 9، 52، 54، 73، 119، 135) من غیر ہذا الوجہ۔

وضاحت: ۱؎: یعنی عقد کو فسخ کرنے سے پہلے مجلس عقد سے اگر بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طور پر جدا ہو گئے تو بیع پکی ہو جائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔
۲؎: اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا، یعنی خیار کی شرط کر لی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیار باقی رہے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2181)

Share this: