احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

35: باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 2476
حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، حدثني يزيد بن زياد، عن محمد بن كعب القرظي، حدثني من , سمع علي بن ابي طالب , يقول: إنا لجلوس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد إذ طلع علينا مصعب بن عمير ما عليه إلا بردة له مرقوعة بفرو، فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم بكى للذي كان فيه من النعمة، والذي هو اليوم فيه، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كيف بكم إذا غدا احدكم في حلة وراح في حلة ووضعت بين يديه صحفة ورفعت اخرى وسترتم بيوتكم كما تستر الكعبة ؟ " قالوا: يا رسول الله نحن يومئذ خير منا اليوم نتفرغ للعبادة ونكفى المؤنة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لانتم اليوم خير منكم يومئذ " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ويزيد بن زياد هو ابن ميسرة وهو مدني، وقد روى عنه مالك بن انس، وغير واحد من اهل العلم، ويزيد بن زياد الدمشقي الذي روى عن الزهري، روى عنه وكيع، ومروان بن معاوية، ويزيد بن ابي زياد كوفي روى عنه سفيان، وشعبة، وابن عيينة، وغير واحد من الائمة.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر ۱؎ آئے ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز و نعمت کو دیکھ کر رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں ان دنوں تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جب کہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا اور اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا، اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردہ ڈالو گے جیسا کہ کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے؟ ۲؎، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اور محنت و مشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یزید بن زیاد سے مراد یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس اور دیگر اہل علم نے روایت کی ہے اور (دوسرے) یزید بن زیاد دمشقی وہ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان سے (یعنی دمشقی سے) وکیع اور مروان بن معاویہ نے روایت کیا ہے، اور (تیسرے) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف 0التحفة: 10339) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی سے استاذ راوی مبہم ہیں)

وضاحت: ۱؎: مصعب بن عمیر رضی الله عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں، یہ اپنا سارا مال و متاع مکہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، عقبہ ثانیہ کے بعد آپ نے ان کو قرآن کی تعلیم دینے اور دین کی باتیں سکھانے کے لیے مدینہ بھیجا، مدینہ میں ہجرت سے پہلے جمعہ کے لیے لوگوں کو سب سے پہلے جمع کرنے کا شرف انہی کو حاصل ہے، زمانہ جاہلیت میں سب سے زیادہ ناز و نعمت کی زندگی گزار نے والے تھے، لیکن اسلام لانے کے بعد ان سب سے انہیں بے رغبتی ہو گئی۔
۲؎: یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ مال ومتاع کی ایسی کثرت ہو جائے گی کہ صبح و شام کپڑے بدلے جائیں گے، قسم قسم کے کھانے لوگوں کے سامنے ہوں گے، لوگ اپنے مکانوں کی تزئین کریں گے، گھروں میں عمدہ اور قیمتی کپڑوں کے پردے لٹکائیں گے، جیسا کہ آج کل ہے۔
۳؎: امام ترمذی ان تین لوگوں کے درمیان فرق بیان کر رہے ہیں جو یزید کے نام سے موسوم ہیں: (۱) یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، جو اس حدیث کی سند میں مذکور ہیں (۲) یزید بن زیاد مشقی ہیں، (۳) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5366 / التحقيق الثاني) ، وانظر الحديث (2591) // ضعيف الجامع الصغير (4293) //

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(2476) إسناده ضعيف / انظر الحديث السابق : 2473

Share this: