احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

19: باب وَمِنْ سُورَةِ الْكَهْفِ
باب: سورۃ الکہف سے بعض آیات کی تفسیر۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3149
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عباس: إن نوفا البكالي يزعم ان موسى صاحب بني إسرائيل ليس بموسى صاحب الخضر، قال: كذب عدو الله، سمعت ابي بن كعب، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " قام موسى خطيبا في بني إسرائيل فسئل اي الناس اعلم ؟ فقال: انا اعلم فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، فاوحى الله إليه ان عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال: اي رب فكيف لي به ؟ فقال له: احمل حوتا في مكتل فحيث تفقد الحوت فهو ثم فانطلق وانطلق معه فتاه وهو يوشع بن نون فجعل ويقال يوسع، فحمل موسى حوتا في مكتل، فانطلق هو وفتاه يمشيان حتى اتيا الصخرة، فرقد موسى وفتاه فاضطرب الحوت في المكتل حتى خرج من المكتل فسقط في البحر، قال: وامسك الله عنه جرية الماء، حتى كان مثل الطاق وكان للحوت سربا، وكان لموسى ولفتاه عجبا، فانطلقا بقية يومهما وليلتهما ونسي صاحب موسى ان يخبره، فلما اصبح موسى قال لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا سورة الكهف آية 62، قال: ولم ينصب حتى جاوز المكان الذي امر به قال ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره واتخذ سبيله في البحر عجبا سورة الكهف آية 63 قال موسى: ذلك ما كنا نبغ فارتدا على آثارهما قصصا سورة الكهف آية 64، قال: فكانا يقصان آثارهما، قال سفيان: يزعم ناس ان تلك الصخرة عندها عين الحياة ولا يصيب ماؤها ميتا إلا عاش، قال: وكان الحوت قد اكل منه فلما قطر عليه الماء عاش، قال: فقصا آثارهما حتى اتيا الصخرة، فراى رجلا مسجى عليه بثوب فسلم عليه موسى، فقال: انى بارضك السلام، قال: انا موسى، قال: موسى بني إسرائيل ؟ قال: نعم، قال: يا موسى إنك على علم من علم الله علمكه لا اعلمه وانا على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه، فقال موسى: هل اتبعك على ان تعلمن مما علمت رشدا { 66 } قال إنك لن تستطيع معي صبرا { 67 } وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا { 68 } قال ستجدني إن شاء الله صابرا ولا اعصي لك امرا { 69 } سورة الكهف آية 66-69 قال له الخضر: فإن اتبعتني فلا تسالني عن شيء حتى احدث لك منه ذكرا سورة الكهف آية 70 قال: نعم، فانطلق الخضر وموسى يمشيان على ساحل البحر، فمرت بهما سفينة فكلماهم ان يحملوهما فعرفوا الخضر فحملوهما بغير نول، فعمد الخضر إلى لوح من الواح السفينة فنزعه، فقال له موسى: قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتهالتغرق اهلها لقد جئت شيئا إمرا { 71 } قال الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا { 72 } قال لا تؤاخذني بما نسيت ولا ترهقني من امري عسرا { 73 } سورة الكهف آية 71-73 ثم خرجا من السفينة فبينما هما يمشيان على الساحل وإذا غلام يلعب مع الغلمان فاخذ الخضر براسه فاقتلعه بيده فقتله، فقال له موسى: اقتلت نفسا زكية بغير نفس لقد جئت شيئا نكرا { 74 } قال الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا { 75 } سورة الكهف آية 74-75، قال: وهذه اشد من الاولى قال إن سالتك عن شيء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني عذرا { 76 } فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية استطعما اهلها فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض سورة الكهف آية 76 ـ 77، يقول: مائل، فقال الخضر بيده هكذا فاقامه سورة الكهف آية 77 فقال له موسى قوم اتيناهم فلم يضيفونا ولم يطعمونا لو شئت لاتخذت عليه اجرا { 77 } قال هذا فراق بيني وبينك سانبئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا { 78 } سورة الكهف آية 77-78، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يرحم الله موسى لوددنا انه كان صبر حتى يقص علينا من اخبارهما، قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الاولى كانت من موسى نسيان، قال: وجاء عصفور حتى وقع على حرف السفينة ثم نقر في البحر، فقال له الخضر: ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا مثل ما نقص هذا العصفور من البحر، قال سعيد بن جبير: وكان يعني ابن عباس يقرا، وكان امامهم ملك ياخذ كل سفينة صالحة غصبا، وكان يقرا، واما الغلام فكان كافرا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ورواه الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، عن ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقد رواه ابو إسحاق الهمداني، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو عيسى: سمعت ابا مزاحم السمرقندي، يقول: سمعت علي بن المديني، يقول: حججت حجة وليس لي همة إلا ان اسمع من سفيان يذكر في هذا الحديث الخبر حتى سمعته، يقول: حدثنا عمرو بن دينار وقد كنت سمعت هذا من سفيان من قبل ذلك ولم يذكر فيه الخبر.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہما السلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے «اللہ اعلم» (اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا، اللہ نے ان کی سرزنش کی اور ان کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ «مجمع البحرین» (دو سمندروں کے سنگم) کے مقام پر ہے، وہ تم سے بڑا عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! میری ان سے ملاقات کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ نے کہا: «زنبیل» (تھیلے) میں ایک مچھلی رکھ لو پھر جہاں مچھلی غائب ہو جائے وہیں میرا وہ بندہ تمہیں ملے گا، موسیٰ چل پڑے ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی تھے، موسیٰ نے ایک مچھلی ٹوکری میں رکھ لی، دونوں چلتے چلتے صخرہ (چٹان) کے پاس پہنچے، اور وہاں سو گئے، (سونے کے دوران) مچھلی تڑپی، تھیلے سے نکل کر سمندر میں جا گری، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مچھلی کے گرتے ہی اللہ تعالیٰ نے پانی کے بہاؤ کو روک دیا، یہاں تک کہ ایک محراب کی صورت بن گئی اور مچھلی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کا راستہ بن گیا، موسیٰ اور ان کے خادم کے لیے یہ حیرت انگیز چیز تھی، وہ نیند سے بیدار ہو کر باقی دن و رات چلتے رہے، موسیٰ کا رفیق سفر انہیں یہ بتانا بھول گیا کہ فلاں مقام پر مچھلی تھیلے سے نکل کر سمندر میں جا چکی ہے، صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا: بھئی ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر میں بہت تھک چکے ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اس جگہ سے آگے بڑھ جانے کے بعد ہی لاحق ہوئی جس جگہ اللہ نے انہیں پہنچنے کا حکم دیا تھا، غلام نے کہا: بھلا دیکھئیے تو سہی (کیسی عجیب بات ہوئی) جب ہم چٹان پر فروکش ہوئے تھے (کچھ دیر آرام کے لیے) تو میں آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا بھول ہی گیا، اور شیطان کے سوا مجھے کسی نے بھی اس کے یاد دلانے سے غافل نہیں کیا ہے، وہ تو حیرت انگیز طریقے سے سمندر میں چلی گئی، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یہی تو وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے، پھر وہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے پلٹے، وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر چل رہے تھے (تاکہ صحیح جگہ پر پہنچ جائیں) (سفیان (راوی) کہتے ہیں: کچھ لوگ سمجھتے ہیں اس چٹان کے قریب چشمہ حیات ہے، جس کسی مردے کو اس کا پانی چھو جائے وہ زندہ ہو جاتا ہے)، مچھلی کچھ کھائی جا چکی تھی۔ مگر جب پانی کے قطرے اس پر پڑے تو وہ زندہ ہو گئی، دونوں اپنے نشانات قدم دیکھ کر چلے یہاں تک کہ چٹان کے پاس پہنچ گئے وہاں سر ڈھانپے ہوئے ایک شخص کو دیکھا، موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام عرض کیا، انہوں نے کہا: تمہارے اس ملک میں سلام کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: میں موسیٰ ہوں، (اور میری شریعت میں سلام ہے) انہوں نے پوچھا: بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ کہا: ہاں، انہوں نے کہا: اے موسیٰ اللہ کے (بےشمار اور بے انتہائی) علوم میں سے تمہارے پاس ایک علم ہے، اللہ نے تمہیں سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا، اور مجھے بھی اللہ کے علوم میں سے ایک علم حاصل ہے، اللہ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے، جسے تم نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں آپ کے ساتھ ساتھ رہوں تو کیا آپ مجھے اللہ نے آپ کو رشد و ہدایت کی جو باتیں سکھائیں ہیں انہیں سکھا دیں گے؟ انہوں نے کہا: آپ میرے پاس ٹک نہیں سکتے، اور جس بات کا آپ کو علم نہیں آپ (اسے بظاہر خلاف شرع دیکھ کر) کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں ان شاءاللہ جموں (اور ٹکوں) گا اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی (اور مخالفت) نہیں کروں گا۔ ان سے خضر (علیہ السلام) نے کہا: اگر آپ میرے ساتھ رہنا ہی چاہتے ہیں تو (دھیان رہے) کسی چیز کے بارے میں بھی مجھ سے مت پوچھیں اور حجت بازی نہ کریں جب تک کہ میں خود ہی آپ کو اس کے بارے میں بتا نہ دوں، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہاں ہاں، (بالکل ایسا ہی ہو گا) پھر خضر و موسیٰ چلے، دونوں سمندر کے ساحل سے لگ کر چلے جا رہے تھے کہ ان کے قریب سے ایک کشتی گزری، ان دونوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ ہمیں بھی کشتی پر سوار کر لو، (باتوں ہی باتوں میں) انہوں نے خضر کو پہچان لیا، ان دونوں کو کشتی پر چڑھا لیا، اور ان سے کرایہ نہ لیا، مگر خضر علیہ السلام کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کی طرف بڑھے اور اسے اکھاڑ دیا، (یہ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہوا) بول پڑے، ایک تو یہ (کشتی والے شریف) لوگ ہیں کہ انہوں نے بغیر کرایہ بھاڑا لیے ہمیں کشتی پر چڑھا لیا اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے ان کی کشتی کی طرف بڑھ کر اسے توڑ دیا تاکہ انہیں ڈبو دیں، یہ تو آپ نے بڑا برا کام کیا، انہوں نے کہا: کیا میں آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ چکا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکتے؟ (خاموش نہیں رہ سکتے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ اس پر میری گرفت نہ کریں میں بھول گیا تھا (کہ میں نے آپ سے خاموش رہنے کا وعدہ کر رکھا ہے) اور آپ میرے کام و معاملے میں دشواریاں کھڑی نہ کریں، پھر وہ دونوں کشتی سے اتر کر ساحل کے کنارے کنارے چلے جا رہے تھے کہ اچانک ایک لڑکا انہیں اور لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اس کی کھوپڑی سر سے اتار کر اسے مار ڈالا، (موسیٰ سے پھر رہا نہ گیا) موسیٰ نے کہا: آپ نے بغیر کسی قصاص کے ایک اچھی بھلی جان لے لی، یہ تو آپ نے بڑی گھناونی حرکت کی ہے۔ انہوں نے کہا: میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کر سکیں گے۔ (کچھ نہ کچھ ضرور بول بیٹھیں گے راوی) کہتے ہیں اور یہ تو پہلے سے بھی زیادہ سخت معاملہ تھا، (اس میں وہ کیسے خاموش رہتے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (یہ بھول بھی ہو ہی گئی) اب اگر میں اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں کچھ پوچھ بیٹھوں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئیے، میرے سلسلے میں آپ عذر کو پہنچے ہوئے ہوں گے، پھر وہ دونوں آگے بڑھے، ایک گاؤں میں پہنچ کر گاؤں والوں سے کہا: آپ لوگ ہماری ضیافت کریں مگر گاؤں والوں نے انہیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کر دیا، وہاں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو گری پڑتی تھی، راوی کہتے ہیں: جھکی ہوئی تھی تو خضر علیہ السلام نے ہاتھ (بڑھا کر) دیوار سیدھی کھڑی کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: یہ تو (ایسی گئی گزری) قوم ہے کہ ہم ان کے پاس آئے، مگر انہوں نے ہماری ضیافت تک نہ کی، ہمیں کھلایا پلایا تک نہیں، آپ چاہتے تو ان سے دیوار سیدھی کھڑی کر دینے کی اجرت لے لیتے۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اب آ گئی ہے ہماری تمہاری جدائی کی گھڑی، جن باتوں پر تم صبر نہ سکے میں تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے، ہمارے لیے تو یہ پسند ہوتا کہ وہ صبر کرتے تو ہم ان دونوں کی (عجیب و غریب) خبریں سنتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلی بار تو موسیٰ علیہ السلام سے بھول ہوئی تھی، آپ نے فرمایا: (اسی موقع پر) ایک گوریا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ گئی پھر سمندر سے اپنی چونچ مار کر پانی نکالا، خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو متوجہ کر کے کہا: اس چڑیا کے سمندر میں چونچ مارنے سے جو کمی ہوئی ہے وہی حیثیت اللہ کے علم کے آگے ہمارے اور تمہارے علم کی ہے، (اس لیے متکبرانہ جملہ کہنے کے بجائے «اللہ اعلم» کہنا زیادہ بہتر ہوتا)۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: ابن عباس «وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا وكان يقرأ وأما الغلام فكان كافرا» ۲؎ پڑھا کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس حدیث کو زہری نے عبیداللہ بن عتبہ سے عبیداللہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے ابی بن کعب رضی الله عنہم کے واسطہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ اور اس حدیث کو ابواسحاق ہمدانی نے بھی سعید بن جبیر سے، سعید نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے ابی بن کعب رضی الله عنہم کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے،
۳- میں نے ابومزاحم سمرقندی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے علی ابن مدینی کو سنا وہ کہتے تھے: میں نے حج کیا، اور میرا حج سے مقصد صرف یہ تھا کہ میں سفیان سے خود سن لوں کہ وہ اس حدیث میں خبر یعنی لفظ «اخبرنا» استعمال کرتے ہیں (یا نہیں) چنانچہ میں نے سنا، انہوں نے «حدثنا عمرو بن دینار …» کا لفظ استعمال کیا۔ اور میں اس سے پہلے بھی سفیان سے یہ سن چکا تھا اور اس میں خبر (یعنی «اخبرنا») کا ذکر نہیں تھا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم 16 (74)، 19 (78)، 44 (122)، والإجارة 7 (2267)، والشروط 12 (2728)، وبدء الخلق 11 (3278)، والأنبیاء (3400)، وتفسیر الکھف 4 (4725)، والتوحید 31 (7478)، صحیح مسلم/الفضائل 46 (2380) (تحفة الأشراف: 39) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبرا ضبط کر لیتا تھا (الکہف: ۷۹)، (موجودہ مصاحف میں «صالحۃ» کا لفظ نہیں ہے۔
۲؎: اور وہ لڑکا کافر تھا جیسا کہ قرآن میں ہے: «وأما الغلام فكان أبواه مؤمنين فخشينا أن يرهقهما طغيانا وكفرا» (الكهف: 80) اور جہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اس کے ماں باپ ایمان والے تھے، چنانچہ ہم ڈر گئے کہ ایسا نہ ہو یہ لڑکا بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کو بھی شرارت و سرکشی اور کفر میں ڈھانپ دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Share this: