احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

179: باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فَيَشُكُّ فِي الزِّيَادَةِ وَالنُّقْصَانِ
باب: آدمی کو نماز پڑھتے وقت کمی یا زیادتی میں شک و شبہ ہو جائے تو کیا کرے؟
سنن ترمذي حدیث نمبر: 396
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن عياض يعني ابن هلال، قال: قلت لابي سعيد احدنا يصلي فلا يدري كيف صلى، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صلى احدكم فلم يدر كيف صلى فليسجد سجدتين وهو جالس " قال: وفي الباب عن عثمان , وابن مسعود , وعائشة , وابي هريرة، قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حديث حسن، وقد روي هذا الحديث عن ابي سعيد من غير هذا الوجه، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " إذا شك احدكم في الواحدة والثنتين فليجعلهما واحدة وإذا شك في الثنتين والثلاث فليجعلهما ثنتين ويسجد في ذلك سجدتين قبل ان يسلم " والعمل على هذا عند اصحابنا، وقال بعض اهل العلم: إذا شك في صلاته فلم يدر كم صلى فليعد.
عیاض یعنی ابن ہلال کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے کہا: ہم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں (یا وہ کیا کرے؟) تو ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ کتنی پڑھی ہے؟ تو وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے۔ (یقینی بات پر بنا کرنے کے بعد)
امام ترمذی کہتے ہیں:
ا- ابوسعید رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عثمان، ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ وغیرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- یہ حدیث ابوسعید سے دیگر کئی سندوں سے بھی مروی ہے،
۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جب تم سے کسی کو ایک اور دو میں شک ہو جائے تو اسے ایک ہی مانے اور جب دو اور تین میں شک ہو تو اسے دو مانے اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے۔ اسی پر ہمارے اصحاب (محدثین) کا عمل ہے ۱؎ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب کسی کو اپنی نماز میں شبہ ہو جائے اور وہ نہ جان سکے کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ تو وہ پھر سے لوٹائے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة 198 (1029)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 129 (1204)، (تحفة الأشراف: 4396)، مسند احمد (3/12، 37، 50، 51، 54) (صحیح) (ہلال بن عیاض یا عیاض بن ہلال مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: اور یہی راجح مسئلہ ہے۔
۲؎: یہ مرجوح قول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1204)

Share this: