احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

60: باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُمْتَحَنَةِ
باب: سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
سنن ترمذي حدیث نمبر: 3305
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن الحسن بن محمد هو ابن الحنفية، عن عبيد الله بن ابي رافع، قال: سمعت علي بن ابي طالب، يقول: " بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير، والمقداد بن الاسود، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن فيها ظعينة معها كتاب فخذوه منها فاتوني به "، فخرجنا تتعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي من كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب او لتلقين الثياب، قال: فاخرجته من عقاصها، قال: فاتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو من حاطب بن ابي بلتعة إلى ناس من المشركين بمكة يخبرهم ببعض امر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما هذا يا حاطب ؟ " قال: لا تعجل علي يا رسول الله، إني كنت امرا ملصقا في قريش ولم اكن من انفسها، وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها اهليهم واموالهم بمكة، فاحببت إذ فاتني ذلك من نسب فيهم ان اتخذ فيهم يدا يحمون بها قرابتي، وما فعلت ذلك كفرا ولا ارتدادا عن ديني ولا رضا بالكفر بعد الإسلام، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " صدق "، فقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: دعني يا رسول الله اضرب عنق هذا المنافق، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إنه قد شهد بدرا، فما يدريك لعل الله اطلع على اهل بدر "، فقال: " اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم "، قال: وفيه انزلت هذه السورة يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء السورة "، قال عمرو: وقد رايت ابن ابي رافع، وكان كاتبا لعلي بن ابي طالب. هذا حديث حسن صحيح، وفيه عن عمر وجابر بن عبد الله، وروى غير واحد عن سفيان بن عيينة هذا الحديث، نحو هذا، وذكروا هذا الحرف، وقالوا: لتخرجن الكتاب او لتلقين الثياب، وقد روي ايضا عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي نحو هذا الحديث، ذكر بعضهم فيه، فقال لتخرجن الكتاب او لنجردنك.
عبیداللہ بن ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کو بھیجا، فرمایا: جاؤ، روضہ خاخ ۱؎ پر پہنچو وہاں ایک ھودج سوار عورت ہے، اس کے پاس ایک خط ہے، وہ خط جا کر اس سے لے لو، اور میرے پاس لے آؤ، چنانچہ ہم نکل پڑے، ہمارے گھوڑے ہمیں لیے لیے دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کر رہے تھے، ہم روضہ پہنچے، ہمیں ہودج سوار عورت مل گئی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال، اس نے کہا: ہمارے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکالتی ہے یا پھر اپنے کپڑے اتارتی ہے؟ (یہ سن کر) اپنی چوٹی (جوڑے) سے اس نے خط نکالا، ہم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہ کی جانب سے تھا، مکہ کے کچھ مشرکین کے پاس بھیجا گیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقدامات کی انہیں خبر دی گئی تھی، آپ نے فرمایا: حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے خلاف حکم فرمانے میں جلدی نہ کریں، میں ایک ایسا شخص تھا جو قریش کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا، لیکن (خاندانی طور پر) قریشی نہ تھا، باقی جو مہاجرین آپ کے ساتھ تھے ان کی وہاں رشتہ داریاں تھیں جس کی وجہ سے وہ رشتہ دار مکہ میں ان کے گھر والوں اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کرتے تھے، میں نے مناسب سمجھا کہ جب ہمارا ان سے کوئی خاندانی و نسبی تعلق نہیں ہے تو میں ان پر احسان کر کے کسی کا ہاتھ پکڑ لوں جس کی وجہ سے یہ اہل مکہ ہمارے گھر اور رشتہ داروں کی حفاظت و حمایت کریں، میں نے ایسا کفر اختیار کر لینے یا اپنے دین سے مرتد ہو جانے یا کفر کو پسند کر لینے کی وجہ سے نہیں کیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاطب نے سچ اور (صحیح) بات کہی ہے، عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس منافق کی گردن مار دوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جنگ بدر میں موجود رہے ہیں، تمہیں معلوم نہیں، یقیناً اللہ نے بدر والوں کی حالت (یعنی ان کے جذبہ جاں فروشی) کو دیکھ کر کہہ دیا ہے: جو چاہو کرو ہم نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں، اسی سلسلے میں یہ پوری سورۃ «يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء» اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم انہیں دوستی کا پیغام بھیجتے ہو (الممتحنۃ: ۱)، آخر تک نازل ہوئی۔ عمرو (راوی حدیث) کہتے ہیں: میں نے عبیداللہ بن ابی رافع کو دیکھا ہے، وہ علی رضی الله عنہ کے کاتب (محرر) تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح کئی ایک نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے روایت کی ہے، اور ان سبھوں نے بھی یہی لفظ ذکر کیا ہے کہ علی اور زبیر رضی الله عنہما وغیرہ نے کہا: تمہیں خط نکال کر دینا ہو گا، ورنہ پھر تمہیں کپڑے اتارنے پڑیں گے،
۳- ابوعبدالرحمٰن السلمی سے بھی یہ حدیث مروی ہوئی ہے، انہوں نے علی رضی الله عنہ سے اسی حدیث کے مانند روایت کیا ہے،
۴- اس باب میں عمر اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور بعضوں نے ذکر کیا کہ انہوں نے کہا کہ تو خط نکال دے ورنہ ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد 141 (3700)، والمغازي 9 (3983)، وتفسیر سورة الممتحنة 1 (4890)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 36 (2494) (تحفة الأشراف: 10227)، و مسند احمد (1/79) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: خاخ ایک جگہ کا نام ہے اس کے اور مدینہ کے درمیان ۱۲ میل کا فاصلہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2381)

Share this: